جس طرح اُردو ادب کے صاحب طرز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں کسی نقاد نے لکھا ہےکہ "ہم اُردو ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں" بالکل اسی طرح میں بغیر کسی مبالغےسے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم توروالی کوہستانی ادب کے "عہد دلبر" میں جی رہے ہیں۔ دلبر خان کا یوسفی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے مزید اضافہ یہ بھی کیاجاسکتا ہے کہ دلبر "لکھاریوں کے لکھاری" ہیں۔ یعنی وہ ایک ایسے لکھنے والے ہیں جو عام قاری سے زیادہ لکھنے والوں اور قلم کاروں کے لیے تفریح طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
دلبر خان کا آبائی گاؤں گرنال (پشتو گورنئی) بحرین سوات ہے
جہاں بقول ان کے وہ صرف پیدا ہونے کو گئے تھے کیونکہ ان کا بیشتر وقت راولپنڈی میں
گذرا ہےاور بیوی بچوں کے ساتھ اردو میں بات
کرنےکے باوجود وہ اپنی زبان ، قوم اور علاقے سے لاتعلق بالکل نہیں رہے۔بے شک وہ اُردو
کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں، غالب اور اقبال کے شیدائی ہیں لیکن توروالی پر بھی
مکمل دست گاہ رکھتے ہیں جو کہ اس کی مادری زبان ہے ۔
دلبرخان توروالی کوہستانی قلم کاروں میں ایک روشن نام ہیں۔ وہ
پہلے پہل توروالی کے ایک جدت پسند شاعر کی حیثیت سے متعارف ہوئے لیکن بعدازاں ان کی
اردو نثر دیکھ کر یہ فیصلہ کرنامشکل ٹہرا کہ وہ
ایک اچھے اردو نثرنگار ہیں یا اچھےتوروالی کوہستانی شاعر۔ان کا مضمون
"میں رائٹر کیسے بنا" جب پہلی بار پڑھنے کو ملا تو پہلا تاثر نہایت منفی
تھا۔ یہی کہ اس اچھے بھلے آدمی نے کیوں کسی کا مضمون اپنے نام کردیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا
ہے گرنال کا دلبر ایسا مضمون لکھ سکے، یہ تو صاف صاف سرقہ ہے علمی بدیانتی ہے۔ لیکن
جب ہر طرح سے تسلی ہوئی کہ یہ مضمون انہی کا
ہے توبجائے تحسین کےان پر غصہ آنے لگا کہ ایسی کمال کی صلاحیت خدا نے دی ہے تو یہ بندہ
لکھتا کیوں نہیں ہے۔
ان کی توروالی شاعری نہ صرف یہ کہ اعلی درجے کی ہے بلکہ بقول
کسے ہرشعر کا "لفظ لفظ قابل داد اور بعض الفاظ داد سے بھی بالاہیں"۔ پہلی بار اپنی زبان میں تک بندی اور مکھی پہ مکھی مارنے کی بجائےسنجیدہ بلکہ فکروخیال
کے لحاظ سے بھی عمیق شاعری پڑھنے کو ملی۔ جیسا کہ:
گئیدو وخ سی دشے
پان نپادو
ہردی اے بھت
سوادو دوئی پھرادو
آ چھی طلب میں خوار و زار و خراب
امن ہڙادو
پادو بھی ہڙادو
ترجمہ: وقت کی صحراوں میں گھومتا ہوں اور راستہ مل نہیں رہا۔روز
ایک بت بناتا ہوں اور دوسرا توڑدیتا ہوں۔ تمہاری طلب میں ایسے خراب ہوا کہ خود کو گم
کردیتا ہوں، دریافت کرلیتا ہوں اور پھر گم کردیتا ہوں۔ یہاں اس قطعے میں دیکھا جاسکتا
ہے کہ یہ روایتی توروالی شاعری سے اس لحاظ سے یکسر مختلف ہے کہ یہاں نہ صرف وزن اور قافیہ کا خیال رکھا گیا
ہے بلکہ خیال کی بھی ندرت ہے۔
اگرچہ دلبرخان مشکل پسند تونہیں لیکن ایک عام توروالی قاری کے
لیے اُن کی شاعری کے بعض نمونے خاصے مشکل
ہوتے ہیں۔ وہ ٹھیٹھ توروالی الفاظ اور مترادفات کا استعمال پسند کرتے لیکن فکر کی گہرائی
کے سبب نامانوس الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے تو جب تک وضاحت نہیں ہوتی وہ لفظ کسی
کے پلے نہیں پڑتا۔ جیسے:
مھزیت موژدی تہجد
می أ
راز
نتھو آ نام و
چھی وا وا سی متاز
چھی دونیئی ما
،دونیئی سی محفلے ما
مھأ پھگادو وتبتل
سی آواز
اب اس شعر سے وہی قاری
پوری طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جو اس میں استعمال ہونے والے قرآنی لفظ 'تبتل' کے مفہوم
سے آشنا ہو۔ یا پھر جیسے یہ شعر
ڈگو ڇھیا سی ڈھوگو ، دلبر نیا سے موُ
سے برہمن ہندو ، تسی
کاشی گُرنال
اس شعرکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن ایک عام توروالی تو کیا غیر توروالی کو بھی پتہ
نہیں کہ 'کاشی' ہندووں کا ایک مقدس مقام ہے
اور شاعر کو اپنا گاوں گُرنال کاشی کا درجہ رکھتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری میں ترنم ہے،موسیقیت ہے اور وہ شیرینی ہے جوشاعری میں معمولی دلچسپی رکھنے
والوں کے لیے بھی بے پناہ کشش رکھتی ہے ۔ بعض
نظموںمیں جذب و مستی اور سرور کی ایک کیفیت
ہوتی ہے جو صرف محسوس کی جاسکتی ہے بیان نہیں کیا جاسکتی۔جسے:
تو پشدو مھأ
مھال، آ میراثی ایگال
مھی عیسی سی
چھی دم ، مھی موسی سی کشال
تا جیل جیلدے
نشیت ، لام بیل بیلدے اشیت
سات سات آسمان
پشیت ، پیدا نہو مھی مھال
تو وہما می پناہ،
آ لا لا بنین گا
تو بخمل می خپا
آ انگا
می خوشال
الغرض دلبر نے توروالی جیسی ایک کم بولی جانے والی زبان میں
ایسا کلام تخلیق کیا ہے جو انتہائی ترقی یافتہ اور ادبی ورثے سے مالامال زبانوں کا
خاصہ ہوتا ہے۔ کاش کہ وہ اس طرف کچھ توجہ دے کیونکہ ہمارا شاعربہت کم نویس بھی توہے۔
مندرسہ کگدو،
مندر کگدو
اُو میٹ نہو و سمندر کگدو
خدا پیأندو گئی
و باسیدے سے
ملان و برہمن
دلبر کگدو
ترجمہ: مدرسے کا کیا
کروں اور مندر کا کیا کروں؟ پانی میٹھا نہ ہو تو سمندر کا کیا کروں؟ اگر(مجھے) خدا
کی معرفت گائے اور بچھڑے سے حاصل ہو تو پھرمولوی
اور برہمن کا کیا کروں؟