رب کائنات



چائے کا کپ ہاتھ میں لئے چائے خانے کے ہال کے کونے میں کرسی پر بیٹھے شیشے کے پار بارش کی ہر بوند کو محسوس کرتا ہوا خدائے کبیر کی عظمت کا اندازہ لگارہا تھا۔لفظ "تھا" اور "اندازہ" تھوڑی دیر بعد سراسر بیوقوفی کے الفاظ معلوم ہوئے۔ کیونکہ تھوڑی سی انہماک پر دونوں لفظوں کے اندر پوشیدہ لفظ "میں" باہر اتا ہے۔ جبکہ میں درحقیقت خاک ہی خاک ہے اور خاک کی چٹکی کو اتنی اہمیت دینا سراسر حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ کپ سے اڑتے ہوئے بخارات نے عجیب سی لطف اندوزی نوازی کہ ایک طرف تو عظیم ہستی کا احاطہ کرنا میرے لیے ناممکن ثابت ہورہا تھا۔اور دوسری طرف حسن خلق جو ارد گرد بارش، سبزہ، اور ہوا میں معلق بخارات میں جلواگر تھی نے مجھے بے خود کیا۔
چنانچہ رب العالمین کو تخیل کی وادیوں میں ڈھونڈنے نکل پڑا۔سراپہ پرواز افلاک کو چیرتے ہوئے اگے بڑھا۔رفتار طرار میں شہانہ شان شاھین لئے منزل مقصود کی راہ پر گامزن عقل کی نانگا پربت کو گرانے والا پہلا عجوبہ سورج کی شکل میں نظر آیا۔
ہ
اتھ کانپنے لگے اور جسم لرز اٹھا۔ آنکھیں پھٹیں کی پھٹیں رہ گئی۔جب دنیا سے تیس لاکھ گنا بڑا آفتاب عین اپنے سامنے پایا۔ اس کی تپش جسم کو بھسم کر نے والی تھی۔سفر وصیلہ ظفر کی مصداق سوچ کی ڈور
کو مزید ڈھیل دی۔ تب جا کر خودکو عین نظام شمسی کے وسط میں پایا۔ ہمارا نظام شمسی ہمارے کہکشاں کی وسط سے بارہ میل فی سیکنڈ کی رفتارسے چکر کاٹتی ہے۔سورج کے گرد گو کسی سیال چیز میں دیگر سیارے خاص خاص مداروں میں تیر رہے ہیں۔ ہمارے کہکشاں میں موجود نو سیاروں میں بعض دنیا سے چھوٹے ہیں اور بعض بڑے۔سیارہ عطارد کا حال یہ ہے کہ اس کے گرد چار قدرتی سٹلائٹ گھومتے ہیں اور خود اس کی جسامت دنیا سے سولہ سو گنا بڑی ہے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کی مزید جستجو نے میرے جسم کو چائے خانے کے کونے میں ہی رہنے دیا۔عقل کھلی فضاء میں انگڑائی لیتی ہوئی تخیل کی عظیم میدان پہنچی، جہاں علم ہیئت کے ماہر سائنسدانوں کے مشاہدات کی جانچ پڑتال ہورہی تھی۔ان کی چہ مگوئیو ں میں صرف اتنی سی بات مجھے سمجھ آئی کہ سر ڈاکٹر جیمز جب اجرام فلکی کے متعلق بات کرتے تو خدائے واحد کی عظمت سے کانپتے اور خوف سے بے حال ہو جاتے۔دوسری طرف دیکھا تو بڑے بڑے علم فلکیات رکھنے والے سائنسدان اپنی عقل کو ملامت کررہےتھے۔خدائے عظیم کی تخلیق کردہ کائنات کے حوالے سے باتیں زوروں پر تھی۔کہ میری نظر ۲۰ صدی کے عظیم کوسمولجسٹ اور اناٹومسٹ ایڈ ون ہبل پر پڑی۔ جو برسراپا احتجاج تھا کہ اس نے اپنے جدید ٹیلیسکوپ سے آسمان کے ایک بہت قلیل جگہ کا مشاہدہ کیا اور بیس لاکھ کہکشائیں دریافت کر لی۔
تاہم ہمارے نظام شمسی میں اگر پلوٹو کو سورج سے بعید ترین سیارہ مانا جائے تو اس کا فاصلہ
۴ارب ۶۰
میل بنتا ہے۔جس کہکشاں میں ہمارا نظام شمسی شامل ہے اس کہکشاں میں تقریباً تین ارب افتاب پائے جاتے ہیں۔ جو قریب ترین افتاب ہے اس کی روشنی کوہمارے نظام شمسی میں پہنچنے میں چار سال صرف ہونگے۔پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات

نہیں بلکہ اب تک کے مشاہدات پر یہ کہا جاتاہے کہ یہ بیس لاکھ لولبی صحابیوں میں سے ایک ہے اور اس میں قریب ترین صحابی کا فاصلہ ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی کو دس سال صرف ہونگے ہمارے زمین تک پہنچنے میں۔مزید افلاک کو چیرا گیا تو ہماری کہکشاں "دی ملکی وے" میں دس ملین ستارے پائے گئے۔


بے تحاشہ تف بنی نوع انسان کے اس گروہ پر جو عقل سلیم اور کلام پاک رکھنے کے باوجود، اس ہستی کی جس کی عظمت کا احاطہ کرنا تو درکنار اس کی تخلیق کردہ کائنات  کا احاطہ کرنے سے سوچ اور قیاس کی ڈور کٹ جاتی ہے، کے قوانین، احکامات اور نام کے منکر ہیں۔ جن کو اس سے بھی زیادہ کامل اور مضبوط دلیل درکار ہے کہ کھربوں میل دور جو نظام اور جو مادہ موجود ہے عین اسی سے ہماری دنیا بنی ہے۔ لیکن دکھتا ایسے ہے جیسے کہ انھیں دلیل نہیں ، ثبوت چاہئے جبکہ ثبوت کے ساتھ ہی مہلت کا خاتمہ یقینی ہے۔ مہلت سے پہلے ہی خواب غفلت سے نکل آنا چاھئے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.