انصاف



میرے بابا صبح اٹھے تو    میں نے پوچھا  ۔ بابا آپ کہاں جا رہے ہو۔ انہوں نے کہا کے عدالت۔ میں نے پوچھا عدالت میں کیا ہوتا ہے۔ کہا کے وہاں ان لوگوں کو حق ملتا ہے جو عام زندگی میں اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔ اور جو لوگ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو سزا ملتی ہے۔ میں نے کہا ۔ کیا بابا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ بابا نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا۔ بابا پھر تو ہمارے ملک میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جس کو مسئلہ ہوا عدالت جائے۔ اور حق لے کر آے۔  معاشرے کا قانون توڑا تو سزا ملی ۔  بابا نے کہا درست ۔  بابا میں بھی آپ کے ساتھ آج عدالت جاؤں گا بابا مان گئے۔ تیاری ہوئی ۔ عدالت پہنچی ۔دیکھا کے گیٹ پر کچھ لوگوں کی تلاشی ہو رہی تھی۔ جبکہ ہماری گاڑی اور کچھ کالے کوٹ پہنے لوگوں کی تلاشی نہیں ہوئی۔ میں نے پوچھا بابا۔ ہمارے اور ان کالے کوٹ والوں کی تلاشی کیوں نہیں ہوئی ۔ بابا بولے بیٹا میں جج ہوں اور یہ کالے کوٹ والے وکیل ہیں، میں نے پوچھا بابا قانون آپ اور  وکیلوں کے لئے نہیں ہے۔ بابا بولے نہیں بیٹا قانون سب کے لئے برابر ہے۔ میں حیران ہوئی کے برابری کیسے ہوئی؟

عدالت میں بابا دو گھنٹے ویسے ہی بیٹھے رہے میں نے پوچھا کیوں ۔کہا بیٹا سب لوگ   10بجے کے بعد آتے ہیں۔ میں پریشان ٹائم8بجے اور کام 10 بجے۔ خیر 10 بج ہی گئے۔ عدالت کے باہر کچھ بینچ زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔  پوچھا تو پتہ چلا کوئی کسی بھی وقت اٹھا کر لے جا سکتا ہے۔ میری حیرت اور بڑھی کہ جہاں چوری کی سزا دی جاتی ہے وہاں سے بھی چوری !عدالت میں آوازیں لگانی شروع ہوئی۔ میں پھر حیران کہا۔ بابا یہ آوازیں کیوں ۔ کہا لوگوں کو پتہ چلے کہ آج ان کی تاریخ ہے۔ میری حیرت بڑھتی گئی کہ اپنی تاریخ کا احساس بھی دوسروں کی یاد دہانی پر منحصر ہے۔
ایک بوڑھے با باجی آئے اور بولے آج میرے گواہان نہیں ہیں ۔ تاریخ دیں ۔ میں نے پوچھا بابا اس کا کیا مسئلہ ہے۔ بابا بولے جائیداد کی تقسیم چاہتا ہے ۔ پوچھا کس کی جائیداد ۔ جواب ملا اپنے باپ کی جائیداد ۔ میرے حیرت کی انتہا نہ رہی کے اپنے باپ کی جائیداد کی تقسیم بھی دوسروں سے ۔ کہا  بہن بھائی اپس میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ 
ایک عورت آئی کہا میرے وکیل آج بیمار ہیں مجھے تاریخ دیں۔ تاریخ ملی ۔ بتایا گیا کے ان کے بھائی ان کو حق نہیں دے رہے ہیں۔ میں کشمکش میں مبتلا  ہو گئی کہ بہن کا حصہ تو قرآن شریف میں ہے کیا ان کا بھائی قرآن نہیں مانتے؟ 
تیسرا بندہ آیا۔ ان کے ساتھ کچھ لوگ تھے ۔ انکو قسم دی کے جو بولیں گے سچ بولیں گے اور سچ کے سیوا  کچھ نہ بولیں گے۔ پھر ایک کالے کوٹ والا ان سے سوالات پوچھنے  لگا۔  میں پھر پریشان ۔ پوچھا ۔ بابا ۔ جب قسم کھائی تو پھر سوالات جوابات کیوں ۔ کیا قسم پر یقین نہیں؟
چوتھا بندہ آیا ۔ بابا نے پوچھا ۔ گواہان کہاں ہیں۔ وہ رونے لگا کے جناب پچھلی تاریخ گواہان کو خرچہ دے کر یہاں لایا ، کھانا کھلایا مگر جب آئے تو آپ چھٹی پر تھے۔ اس باری کا خرچہ پورا نہ کر سکا۔ خرچہ پورا کروں تو ساتھ لاؤں ۔ تاریخ دی۔
پانچوں بندہ آیا کے حضور میں نے بیوی کو طلاق دی ہے ۔ نہ دینا چاہتا ہوں۔ بیوی بولی ان کے خاندان کے ساتھ گزارہ مشکل ہے۔ مجھے علیحدگی چاہئے۔ میں اچھل پڑی ۔ کہ مسئلہ خاندان سے اور طلاق شوہر سے۔ بچے دو تھے ایک باپ کو ملا اور ایک ماں کو۔ میری سوچ بچوں کے بارے میں ٹہر گئی ۔ پولیس آئی سلوٹ کیا۔ مجرموں کو لائی۔ ایک کو بابا نے ہزار جرمانہ کیا۔ میں پوچھی کیوں؟ بولا چرس پر رہا تھا۔ مجھے دھچکا لگا۔ کہ چرس پینے پر بس کچھ روپوں کی سزا ور جس سے لی تھی اس کا کیا ہوا؟
دوسرا مجرم پانچ سو جرمانہ ہوا۔ کیوں؟ بغیر لائیسنس اسلحہ لے کر گھوم رہا تھا مجرم نے لائیسنس دکھایا۔ بابا بولے اس پولیس والے کو بلاؤں گا جس نے لائیسنس کے باوجود چالان کیا۔ ایک کالے کوٹ والا بیچ میں کود پڑا۔ حضور والا جرمانہ لیں بات ختم کریں ۔ پولیس سے کیا پنگا۔ میرے ذہن نے کام  چھوڑ دیا کہ پولیس سے پنگا یہاں نہیں تو کہاں؟
اتنے میں 10 کالے کوٹ والے اندر آئے ان میں ایک کافی بوڑھا نظر آ رہا تھا اس سے بابا ہنس کر بولے اس نے کہا۔سرجی آج میرا موڈ نہیں ہے تاریخ دیں تاریخ دی ۔ میں نے پوچھا ۔ بابا ایسے ہی تاریخ کیوں دی۔ بابا بولے ۔ یہ سینیئر وکیل ہیں ان سے پنگا نہیں۔ میں حیران کے صبح بابا نے برابری کا کہا تھا کیا جھوٹ بولا تھا۔ بابا اٹھے کمرے میں چلے گئے کہ بریک ہے۔ میں خوش ہوئی کہ کھانے کو کچھ ملے گا اندر میز پر چھولے اور چائے ملی میں سمجھی تھی کہ شاید بابا افسر ہیں ۔چھولے ہم سکول میں بھی کھاتے تھے میں باہر گھومنے نکل آئی ایک بندہ دوسرے کو کچھ پیسے دے رہا تھا۔ میں نے سنا کے یہ مٹھائی ہے رکھ لو میں نے سوچا مٹھائی کیوں کیا تنخواہ نہیں ملتی پھر حیران کے بندہ خوشی سے دے رہا تھا۔ کچھ لوگوں کو کہتے سنا کہ کیس تو میں ہار جاؤں گا مگر ان کو پتہ چلا کے اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں ہوں۔ قہقہہ لگا۔ ایک کالے کوٹ والے کو سنا کہ ایک با باجی سے کہہ رہے تھے کہ بے فکر رہو اسے ایسا پھنساؤں گا اس کو نانی یاد آجائے گی۔ ایک نے کہا سرکاری وکیل اپنا بندہ ہے اس سے بات سیٹ ہو گئی ہے۔ ایک موصوف سے کہتے سنا چونکہ جیل میں قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جگہ کم ہے  اگر آپ مجھے کچھ خرچہ پانی دے دیں تو میرے جیل کے اندر بڑے اچھے تعلقات ہیں میں وہاں آپ کے لئے فائیوسٹار جیسے انتظامات کر سکتا ہوں ۔

ایک سلجھے ہوئے نوجوان کو کہتے سنا کہ ضمانت دینے کے لئے تیار ہوں مگر اس پر خرچہ آئے گا۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے ایک بندے کو خان جی خان جی کہہ رہے تھے میں سمجھی شاید رشتہ دار ہیں مگر پتہ چلا کہ وہ ایک پولیس سٹیشن کا SHO تھا ۔ میں دبے قدموں سے بابا کے کمرے میں واپس آئی۔ تو میرے ذہن میں یہ سوال گھوم رہا تھا کہ یہاں تو لوگ خود اپنے کیسوں کو ختم نہیں کروانا چاہتے۔ آسانی سے جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ مقدمات میں کوئی صداقت نہیں لوگ خوشی سے رشوت دیتے ہیں۔ کالے کوٹ والوں نے وکیلوں کی جگہ لی ہے۔ عدالت کچھ جرمانے اور کچھ دن کی قید کر کے مطمئن ہو جاتی ہے سب کچھ دیکھا مگر بابا نے جو انصاف کا کہا تھا۔ وہ نہ دیکھ سکی ۔ 3بج گئے گاڑی آئی۔ اس میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوئے۔ سارے راستے سوچتی رہی کہ کیا سب اپنی ذمہ دارییاں پوری کر رہے ہیں۔ بابا سے پوچھنا چاہا دیکھا کہ وہ سر ایک طرف کر کے سو گئے تھے۔
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

ad1