سوات پر محمود غزنوی کے احسا نات




محمود غزنوی کے سوات پر حملے سے پہلے یہاں بدھ مت تھی اور سر زمین سوات کفر کی تا ریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بدھ مت کا احوال عروج مختلف سیاحوں کی زبانی پہلے گزر چکا ہے۔یہ صحیح ہے کہ اگر محمود یہاں حملہ نہ کرتا تو پھر بھی سوات میں اسلام کی اشا عت ہوتی لیکن کئی دہا ئیا ں گزر جاتیں۔ محمود غزنوی راجہ جے پال کی عہد شکنی کی وجہ سے اس پر حملہ کرنے افغانستان سے براستہ با جوڑ جب چکدرہ پہنچا تو اس کے مشیروں نے اس کو مشورہ دیا کہ راجہ جے پال سے نپٹنے سے پہلے اس کا ایک ہم مذ ہب اور رشتہ دار راجہ گیرا سرزمین سوات پر بدھ حکمران ہے۔ اس کا صفا یا کرنا ضروری ہے۔ مبا دہ ملا کنڈ سے اتر تے ہوئے وہ پیچھے سے حملہ کرکے نقصان پہنچا دے۔محمود نے ان کا مشورہ مان لیا اور چکدرہ سے براستہ شمو زئی فوج کا ایک حصہ خواجہ ایاز کی سر کر دگی میں دریائے سوات کے با ئیں کنارے پر آباد علاقوں نیک پی خیل، شمو زئی اور شامیزئی وغیرہ میں اشا عت دین کے لئے روانہ کیااور دوسرا حصہ فوج لیکر خود سوات کے جنوب سے حملہ آور ہوا۔گیرا کھلے میدان میں محمود کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ایک مضبو ط قلعے میں قلعہ بند ہوا۔ تین دن کی سخت لڑائی کے با وجود قلعہ فتح نہ ہوسکا۔ ایک رات محمود کے خواب میں کسی بزرگ سے ملاقات ہو ئی۔ بزرگ نے کہا کہ یہ قلعہ تب فتح ہوگا جب علم  ( جھنڈا) آل رسول میں سے کسی کو دیا جائے۔ خواب سے بیدار ہوکر محمود نے لشکر یوں سے پو چھا کہ آپ میں سے کو ئی آل رسول ہے۔ لشکر نے جواب دیا کہ خوشحال نامی ایک امام ہے۔جو کہ لشکر میں پیر خوشحال کے نام سے مشہور ہیں۔ دوسری روایت یہ ہے کہ خواب میں بزرگ نے کہا کہ تمہارے خیموں کے آخری خیمے میں ایک آدمی رہتا ہے۔ نشانی یہ ہے کہ اس کے خیمے میں ساری رات روشنی ہو تی ہے۔ یعنی وہ راتوں کو عبادت میں مشغول ہو تا ہے۔ بہرحال پیر خو شحال کو محمود کے سامنے حا ضر کیا۔محمود نے کہا کہ علم آج سے تمہا رے حوالے۔پیر خوشحال بہت توانا اور خو بصورت نو جوان تھا۔ اس نے علم پکڑا اور فوج کی قیادت کر نے لگا۔کئی دن لڑائی ہو تی رہی گیرا کی بیٹی جس کا نام دیوی مونجہ تھا اس ساری لڑا ئی کوچھپ کر دیکھ ر ہی تھی اور کئی دنوں سے پیرخو شحال اس کی نظر وں میں تھا۔اس کو دل دے بیٹھی۔کسی قا صد کو سید کے پاس بھیجا کہ اگر شادی کی شرط منظور ہو تو قلعہ فتح کر نے کا راز بتا سکتی ہوں۔سید نے انکار کردیا۔ بہت زور کی لڑا ئی شر وع تھی۔ نیز وں کی بارش ہورہی تھی۔پیر خوشحال کا دایاں ہاتھ کٹ گیا۔ علم با ئیں ہاتھ میں پکڑا۔ وہ ہاتھ بھی کٹ گیا۔ عالم منہ میں پکڑا۔ آخر ایک پیاسا گھوڑا لایا گیا۔ جس نے پا نی کی سپلا ئی لائن کی نشا ن دہی کی۔ پانی کی سپلا ئی لا ئن کا ٹ دی گئی۔ پا نی کا فی دور سے مٹی کے صر ا حی نما بر تنوں میں لا یا گیا تھا۔آخر تین دن بعد گیرا رات کی تاریکی میں قلعہ سے نکل کر گھوڑے پر شمال کی طرف بھا گا۔محمود کی فوج نے ایاز کی سرکر دگی میں کافی دور تک گیرا کا پیچھا کیا۔ رات کی تاریکی میں گیرا کسی پہا ڑ کے گہرے غار میں گھوڑے سمیت گر کر ہلاک ہوا۔جو شکا ریوں کو کئی دن بعد ملا۔ جس کو اس کی کسی نشانی سے پہچانا گیا۔مونجہ دیوی کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ البتہ پیر خوشحال نے وہاں شہادت پائی۔ اوڈیگرام میں دفن کیا گیا۔وہ غازی بابا کے نام سے مشہورہیں۔اس جنگ میں محمود غز نوی کے  دوبیٹوں نے بھی شہا دت نوش کی۔ پیر خوشحال کی مزار پر آج بھی لوگ حاضری دیتے ہیں۔ اس لڑائی میں محمو د کے ساتھ دیگر پختون اور دلہ زاک بھی آئے تھے۔ جو کے بعد میں سواتی قوم مشہور ہوئی۔ محمودنے کچھ دلہ زاک اور کچھ سواتی قوم کو سوات میں آباد کیا تا کہ یہاں اسلام پھیل جائے۔ بعد میں سواتی پٹھان اور دلہ زاکوں میں جنگ چھیڑی تو دلہ زاک سوات چھوڑ کر مردان چلے گئے۔
 1984ءمیں آثار قد یمہ کی کھد ائی کے دوران اوڈیگرام میں محمود غز نوی کے وقت کی ایک مسجددریافت ہوئی۔ جو ایک ہزار سال پرانی ہے۔ اس مسجد سے ایک کتبہ بھی دریافت ہوا جس کے مطابق اس مسجد کی بنیاد 1048ءمیں ڈالی گئی تھی۔ محمود غز نوی نے اپنے بھتیجے حاکم منصور کواس کی تعمیر کا حکم دیا تھا حاکم منصور نے اپنے سپہ سالار نوشگین کی نگرانی میں اسے تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد کی طرزتعمیر اپنی مثال اپ ہے۔ اس مسجد کے درمیان میں وضو کے لئے پانی کا حوض اور حوض سے پانی نکا لنے کے لئے نالہ اور محراب بنا یا گیا تھا۔ اس مسجد میں طلباءاور اسا تذہ کے لئے رہائشی مکانات باورچی خا نے بھی بنا ئے گئے تھے۔غالباََ یہ سوات کی اولین مسجد ہے۔ محمود غزنوی کی فتو حا ت کے بعد سلا طین جہا نگیر یہ کی حکومت گیارہویں صدی سے پند ر ھویں صدی تک رہی۔ سلاطین جہا نگیر یہ کا آخری حکمران سلطان اویس تھا۔ پھر یوسف زئیوں کا دور رہا۔ 1516ءمیں بابر با دشاہ نے بھی سوات فتح کر نے کی غرض سے قلعہ منگلور پر حملے کئے۔ چو نکہ قلعہ مضبو ط تھا اور بابر بادشاہ کو واپس جانے کی جلد ی تھی۔ اس وجہ سے قلعہ منگلور فتح نہ ہو سکا۔ بابر کے جانے کے بعد انباز کیدام توروال کے قبائل سے لیا گیا اقتباس یو سف زئی کی مسلسل یلغا ر کے بعد اسی سال سلطان اویس کو یہ قلعہ چھو ڑنا پڑا اور وہ اپنا لشکر اور متعلقین کو لیکر تاج خیلہ گیا۔ وہاں سے چار دن کا سفر کرکے نیا ک درہ پہنچا۔ بابر بادشاہ اگر اویس کو حمایت کا یقین دلاتا تو یوسف زئی کبھی بھی سلطان اویس پر حملے کی جرات نہ کرسکتے۔ واپسی میں بابر نے ملک شاہ منصور برادر ملک احمد کی بیٹی مبا رکہ سے شادی کی۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.