بے لگا م عقل


عقل اللہ رب العزت نے انسانوں میں ایک اضافی خوبی کے طور پر ودیعت رکھا ہے ،اسی کی بنیاد پر حیوانات میں انسانوں کو خصوصی شرافت کے ساتھ ساتھ دنیا کے نظم و نسق چلانے کا قابل اور اختیار مند بنایا ہے ،ذہانت ،سمجھداری اور ادراک کے معنی رکھنے والا لفظ عقل انسانوں کو عقلمند بنادیتاہے ،اللہ رب العزت نے جب تمام حیوانات سے ممتاز کرنے کے لئے انسان کو صرف عقلمندی کی اضافی خوبی سے نوازا ہے تو پھر اپنی پہچان کے لئے بھی انسان کو عقل سے کام لینے پر زور دیا ہے ،مطالعہ قرآن واسلام سے پتہ چلتا ہے کہ معرفت خدواندکریم کے لئے نقل سے زیادہ عقلیات کے موضوع پر زور دیا گیا ہے آسمان اور زمین کی پیدائش، پہاڑوں اوردریاؤں کا بنانا ، اڑتے پرندے  ، چرندے خود انسان اور حیوانات کا اندرونی نظام وغیرہ تفصیل کے ساتھ ان تمام چیزوں کو بنیاد بنا کر انسان کو مخاطب کر کے اس کے عقلی نظام پر زور دیا گیا ہے کہ کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ ان چیزوں میں مجھے تلاش کرسکو ؟کیا ان اشیاءکی پیدائش سے آپ مجھے معلوم نہیں کرسکتے؟آپ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟کیا آپ کا عقل کام کا نہیں؟
دوسری طرف اللہ کی ذات اوراس کا نظام ایک متعین حقیقت ہے اس کو عقل کا محتاج نہیں بنایا جا سکتا بلکہ عقل کا کام اس متعین ذات کی تلاش اور جستجو ہے ،ورنہ ہر انسان اپنی عقل کی بنیادپروجود باری تعالیٰ کادعودیداربنے گا کیونکہ اللہ نے انسان کو عقل دیا ہے لیکن عقل کا توازن الگ الگ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی بات مختلف انسان اپنے اپنے زاویوں کے مطابق سوچتا ہے کوئی راہ پالیتاہے اور کوئی بھٹک جاتا ہے۔ اس لئے اللہ رب العزت نے ایک مخصوص زاوئے کو سامنے رکھ کر عقل کے استعمال کے لئے کا ملین عقل انبیاءعلیہم السلام کو بھیجا جن کا عقل تمام انسانوں کے عقلوں سے بڑھ کر ہے،خاص کر تاجدار انبیاءعلیہ السلام کا عقل اور ذہانت تمام انبیاءعلیہم السلام سے بڑھ کر ہے ،لہذا اسلام نے عقل کے استعمال سے نہیں روکا بلکہ عقل کے استعمال کے لئے ایک مدار مقرر کیا ہے ،آپ نے اس مدار کے اندر رہ کر عقل کا استعمال کرنا ہے اس مدار کا نام قانون شریعت ہے ،چنانچہ شریعت اوراس کے قوانین نہ عقل کے متصادم ہیں اور نہ عقل کے مخالف ،لیکن جہاں شریعت نے کوئی حکم دیا ہے انسانی عقل کو اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کی بالکل اجازت نہیں دی ، البتہ اس حکم کو بہتر سے بہتر انداز میں حل کرنے یا بجا لانے کے لئے بیشک آپ عقل کا استعمال کرے مثلاً شریعت نے نماز کا حکم دیا ہے ،رکعات کی تعداد متعین ہیں ،ایک رکعت میں ایک رکوع دو سجدے فرض ہیں۔اب کسی بھی عقلمند سے عقلمند انسان کے لئے اس ترتیب میں تبدیلی کی گنجائش اور اجازت نہیں ہے ،آپ حکم لگائیں کہ مجھے سجدوں میں بہت سکون ملتی ہے ،اللہ کی قربت کا بہترین ذریعہ ہے لہذا آئندہ میں دو کے بجائے چار سجدے کیا کروں گا ،آپ کی غلطی پر فوراً فتوی لگ جائے گا لیکن اگر آپ نے یہ سو چاہے کہ پرسکون سجدوں کے لئے کونسا ماحول اور جگہ درکار ہے ؟تو شریعت نے یہ کام آپ کی صوابدید پر چھوڑدیاہے،آپ کچے کمرے میں پڑھے یا پکے میں ،سنگ مرمر والی مسجد میں پڑھے یا یاقوت ومرجان والی میں پڑھے،غرض آپ جیسے بھی جگہ نماز پڑھنا چاہے یا آپ کو جہاں سہولت ہو ،یا اپنی مسجد کی تزئین و آرائش کرنا چاہو آپ بے فکر ہو کر پڑھے ،آپ کے اوپر کسی قسم کا فتوی نہیں لگے گا۔حج کے مخصوص طریقہ کار اور ارکان کو سامنے رکھ کر آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کی ادائیگی کے لئے دنیاوی سہولیات کا استعمال کر سکتے ہیں کوئی ناجائز نہیں کہے گا۔
یہی حال نظام اسلام کا بھی ہے جو شریعت نے مقرر کیا ہے احکامات لگادیئے ہیں ،لہذا نظام و احکامات وہی رہیں گے باقی اس کی تنفیذ کے لئے آپ عقل کا سہارا لیکر جدید زندگی کی سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہو تو کوئی امر مانع نہیں ہے بلکہ اسلامی تصور علم کی رو سے عقل و نقل میں کوئی تعارض نہیں ہے،علماءنے علم کے تمام شعبوں میں جو کام سر انجام دیا ہے ان میں کوئی بھی عقل کا مقابل نہیں ہے اصول قرآن و حدیث سے لیکر تمام فنون تک عقلیات کا مکمل خیال رکھا گیا ہے۔
جدید زمانے میں بھی یہی اصول ہیں، شریعت کے اصل کو سامنے رکھ کر آپ کوئی بھی ایجاد کرنا چاہو تونہ کوئی مفتی روکے گا اور نہ کوئی فتوی لگے گا آپ جدید دنیا کی جتنی ترقی کرنا چاہو سائنس کا میدان آپ کے لئے کھلا ہے بلکہ شریعت جہاں دیکھتی ہے کہ اس فرنگی کے پیداوار کے نام پر بنی ہوئی چیز سے ہمارے لئے بھی فائدہ اٹھانا از روئے شریعت ممکن ہے تواس کے استعمال سے کوئی تعارض نہیں کی ،گویا اس کی استعمال کی اجازت دی اوراس استعمال کے لئے کسی تحقیقی مجلس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی ہے ،آپ دیکھ رہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے نت نئے اشیاءکااستعمال مساجد کے اندر تک پہنچ چکا ہے اور مزیدتیزرفتاری کے ساتھ اس کا استعمال جاری ہے مگر آج تک یہ ضرورت تک بھی محسوس نہیں کی گئی ہے کہ اس کا موجد معلوم کیا جائے کہ مسلم تھا کہ غیر مسلم؟ کیونکہ یہ ثانوی چیز ہے۔آپ جدید تقاضوں کے مطابق حج کے سہولیات کا اندازہ لگائیں کہ کس طرح بے دریغ یہ چیزیں حرم کا حصہ بن رہی ہیں ،مگر اس پر شکوک و شبہات کا اظہار تودرکنار اس کی وجود پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیاجارہاہے،یہاں تک کہ مساجد کی صفیں اورجائے نماز تک غیر مسلم بناتے ہیں البتہ شریعت نے سائنس پر صرف اتنی نظر رکھی ہے کہ اسلام کے متصادم کوئی بھی عمل ناقابل قبول ہوگا،فلمیں ،ڈرامے بے ہو دہ پروگرامات کلو ننگ وغیرہ اسلامی شریعت کے متصادم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں سائنسی ایجادات کی وجہ سے نہیں۔
چنانچہ اہل شریعت نظریں جما کے بیٹھے ہیں ایک ایک ایجاد کو دیکھ رہے ہیں ایک چیز کے بارے ازروئے شریعت شک پڑ گیا منع کرنے کا حکم دیا، غوروفکر کر کے اس کی جائز استعمال کے راستے تلاش کر لئے گئے تو اجازت دی ،اس کو علماءکی کمزوری اور جہالت کے مقابلہ میں وسعت علمی کہاجائے توبہترہے ۔یہ اعتراض یا طنز خود مبنی پر جہالت ہے کہ علماءشروع میں ایک چیز کی حرمت کاویو دیتے ہیں اور پھر بعد میں جائز کرتے ہیں ۔یہی عذر لنگ تو اہل سائنس کو بھی لاحق ہے ،ایجاد پر جب تک تجربہ نہ ہوا ہو تو اسے استعمال میں لانے کی اجازت نہیں دیتے دوسری طرف ایک ایجاد کے بعد دوسری ایجاد مختلف ہوتی ہے پہلے کو چھوڑ کردوسری ایجاد کو قبول کیا جاتا ہے مثلاً موجد کمپیوٹر کا نظریہ کچھ تھا مزید لوگوں نے ترقی کر کے اس کا نظریہ ردکردیا اورطاقتورسے طاقتور کمپیوٹر اب کمروں کے بجائے جیبوں تک پہنچ چکا ہے ،ٹیکنالوجی کی ترقی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اس کو ترقی کہا جاتا ہے تواس کے ساتھ ساتھ کچھ احکامات شریعت بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اس کو بھی اہل دین کی وسعت علمی اور تحقیقی حقیقت تسلیم کی جائے ۔
            لیکن یہ انتہائی کم ظرفی ہے کہ ترقی کے اس میدان میں تو عقل کو بے لگا م دوڑادیاجائے اور شریعت کی تحقیق اور جستجو پر یہ کہہ کر پابندی لگائی جائے کہ اس سے سائنس کی مخالفت ہو رہی ہے ،صورتحال یہ ہے کہ شریعت کے اصولوں کو سامنے رکھ کر آپ نے عقل کا استعمال کرنا ہے ایسا نہ ہو کہ آپ کی بے لگا م عقل سائنس کی محبت میں آپ کو اسلام دشمن بنا کے رکھ دے ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.