سماجیات یا امریکن نام بشریات یعنی انتھروپالوجی مختلف سماجوں کو جاننے یا ان کے مطا لعے کی سائنس ہے۔ دنیا مختلف النوع سماجوں کا گہوارہ ہے ان میں گروہی لسانی علاقائی اور جغرافیائی رنگوں کے ساتھ ساتھ اقوام کی گروہی بد و باش رسوم و روایات اقدارخوراک لباس اور طرز معاشرت وغیرہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ قوموں کی یہ خصوصیات ایک دوسرے سے اثرات بھی لیتی رہتی ہیں اور ساتھ صدیوں کے گذرنے کے عمل سے تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ہمیں بیچ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آج
کل کی تیز ترین ٹکنالوجی نے سماجوں میں تبدیلی کے عمل کو تیزتر کر کے رکھ دیا ہے۔
سماجیات بطور سائنس کے تعلیمی اداروں میں
پڑھنے کا ایک وسیع مضمون ہے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اگسٹ کومٹ نے ۱۸۳۶
میں اسے باقاعدہ ترتیب دیکر فرانسیسی تعلیمی اداروں میں متعارف کیا تھا۔ اس علم کا
بانی تیونس کا ابن خلدون ۱۳۳۲ـ۱۴۰۶ ہو
گزرا ہے۔ انہوں نے سماجی سائنس کے اس شعبے کو علم العمران کہا اور اپنے مقدمہ ابن
خلدون میں لکھا کہ کوئی بھی تاریخ دان کسی قوم کی ثقہ تاریخ اس وقت تک نہیں لکھ
سکتا جب تک پہلے اس نے اس قوم کے سماج کا مطالعہ نہ کیا ہو۔
اس مضمون کے
عنوان کے دوسرے حصے کی جانب بڑھتے ہیں تاکہ آج کے اس کالم کو سمویا جا سکے۔
فرد اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ایک
طرف فرد اپنی حیثیت کے مطابق سماج پر اثر انداز ہوتا ہے تو دوسری طرف سماج فرد پر
اثر انداز رہتا ہے۔ اور اسے بعض کاموں کے کرنے کی آزادی اور بعض سے اجتناب برتنے
کی توقع کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرد کے ایسے بعض افعال سے نہ تو سوسائٹی یا
کسی دوسرے آدمی کا نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی ان افعال کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی
عقلی توجیہ ہوسکتی ہے، مگر پھر بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ ایسی پابندیوں کو سماجی
ممانعات یا انگریزی میں سوشل سینکشنس کہا جاتا ہے۔ سماج یا سوسائٹی فرد کے اچھے کاموں کی داد
جبکہ برے کاموں کے لئے سزا دیتی ہے۔ یہاں سزا سے مراد اکیلی عدالتی سزا نہیں بلکہ
بدنی سزا، نفرت، ہنسنا اور کترانا اغیرہ سب شامل ہے۔ بنیادی طور پر سماجی پابندیوں
کی تین قسمیں گنوائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہماری بحث سماج میں
انسانی زندگی کے تین دائروں، قانون، اقدار اور طبو پرہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان
تینوں دائروں کی اپنی اپنی ترجیحات اور جزا و سزا مقرر ہیں۔ اورعام طور پران کا
ایک دوسرے کے افعال سے سروکار نہیں ہوتا۔
آئیے ان پر تھوڑی روشنی ڈالتے ہیں؛
قانون؛
قانون جرمن لفظ ۔لاگ۔۔ سے نکلا ہے۔ جس
کے معنی حتمی کے ہیں اور اصطلاح میں اس کی معنی طاقتور کا اپنے سے کمزور پر حکم
چلانے کے ہیں۔ معلوم تاریخ میں دنیا کا پہلا آئین جو کہ پتھر کے کتبوں پر کندہ
ٹکڑوں میں ملا ہے، ۳۰۰۰ قبل مسیح میں قدیم مصری مسوٹوپئین تہذیب کے بادشاہ حمورابی
کا لکھا ہوا پایا گیا ہے۔
قانون کے سماجی پہلوؤں سے ہم آگاہ ہیں۔
جو کہ ریاست اداروں کے ذریعے اپنے شہریوں کوجرائم کے انسداد، سزا دینے اور ڈسپلین
قائم رکھنے کے لئے بناتی ہے اور پارلمنٹ کے ذریعے نت نئے قوانین یا پرانے قوانین
میں ترمیم و اضافے سے شہریوں کو سدھاتی رہتی ہے۔
اب فرد کے افعال میں ان تین دائروں میں
سے ایک کی دوسرے میں مداخلت نہ کرنے کی مثال یہ ہے کہ ایک ڈرائیور شہر کے کسی چوک
سے سنگنل توڑتے ہوئے گذر جائے تو قانون کی نظرمیں وہ اگرچہ مجرم ٹہرا مگر باقی دو
ممانعات کا سگنل توڑنے والے ڈرائیور سے کوئی لینا دینا نہیں بنتا۔
اقدار:۔
بنیادی طور پر ان کا تعلق مذہب سے ہے۔
سماج کے اندرجب اس کا نفوض ہو جائے تو ان سے بھی مختلف عقائد، رسوم، روایات بنتے
ہیں۔ درخائم کے مطابق مذہب اخلاقی کمیونٹی میں عقائد اور عبادات کا ایک مربوط نظام
ہے۔ جس میں چیزوں اور افعال کو تقدس حاصل ہوتا ہے۔
عبادات کے علاوہ زندگی کے دیگرمعاملات
بھی عقائد یا اقدار کے ذیل میں آتا ہے۔ ان اقدار میں کوتاہی بھی کسی شخص کے لئے
سزا یا جزا کا موجب بنتی ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلا کسی مخصوص کمیونٹی میں
رہتے ہوئے مذہبی اجتماع میں شرکت نہ کرنا، عبادت میں شامل نہ ہونا وغیرہ۔ لوگ اس
شخص کی چھوٹی چھوٹی باتوں مثلا علاقائی
سطح پر دیکھیں تو بائیں ہاتھ سے پانی پینا،بسم اللہ نہ پڑھنا اور دیگر شعائر میں
سستی پر نظر رکھتے ہیں۔ عقائد میں سستی موجب گناہ ٹہر جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں
ایسے شخص کو قانون کچھ نہیں کہتا مگر کمیونٹی کے اندر مخصوص عقائد کے لوگ سزا کے
طور پر اس سے بے گانگی کا رویہ رکھتے ہیں۔
طبو؛
سماجوں اور ثقافتوں میں ایکدوسرے سے مختلف
چند ایسی ممنوعات ہوتی ہیں جنہیں طبو کہا جاتا ہے۔ طبو قوانین اور مذاہب و عقائدہ
سے الگ روایات ہوتی ہیں جن کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ بس لوگ ان پر
عمل کرتے ہیں۔
مریل کہتا ہے، ثقافت پر گرفت کرنے اور
اسے مثبت پیش کرنے کے لئے رسوم کو حرام اور ٹیبو بنا دیا گیا ہے۔
روایت توڑ
کر الگ طریقہ اپنانا یا فعل کرنا، محفل میں ٹانگ پر ٹانگ اڑا کر بیٹھنا، بڑوں سے
بے تکلف ہونا، بڑوں کے سامنے نہ بولنا، زیارتوں کے درختوں سے ٹہنی تک کو ہاتھ نہ
لگانا، لڑکی کا اپنی مرضی سے خاوند چننا، بعض سخت گیر معاشروں میں مرد کا ننگے سر
رہنا اور بہت سی مثالیں ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے پر نہ تو مذہب قدغن لگاتا ہے
اور نہ ہی قانون کی ہتھ کڑی لگتی ہے مگر سماج اور قبیلہ اپنے طور پر سزا دیتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ کسی سماج کے لئے
کوئی بات ٹیبو نہیں ہوتی جبکہ دوسرے سماج میں وہی فعل کسی گناہ یا جرم سے کم نہیں
ہوتا۔ مشہور ہے کہ پرانے وقتوں میں کسی آدمی کی سر محفل پیٹ سے باد خارج ہوئی تھی
اورلوگوں کے طعنوں اور مارے شرم کے اس نے وہ گاؤں ہی چھوڑا تھا۔
ایک دفعہ ایک یورپی باشندے نے مقامی محفل میں سر عام ریح
چھوڑا تو لوگ ہنسنے لگے، اس پر اس نے برجستہ کہا تھا کہ مجھے تم لوگوں کے منہ سے
ڈکارنے پر ہنسی آتی ہے کیوں کہ منہ کھانے کے لئے ہوتا ہے اور ڈکارنے کے لئے وہ
قدرتی جگہ ہے جس پر تم لوگ ہنستے ہو۔