ریاست ہائے امریکہ ایک سپرپاور ہے اور پوری دنیا میں اپنی بادشاہت قائم کیے ہوئے ہے ۔انہوں نے یہ مقام کسی بابا کے مزار پر جا کر حاصل نہیں کیا اور نہ ہی دعائیں مانگ کر ۔ ان کو زوال بھی میرے اور آپ کے مسجد میں بیٹھ کر امام صاحب کے جمعے کے خطبے میں بربادی کی بددعا کی وجہ سے آسکے گا ۔ہم کب تک امریکہ اور امریکی قوم کو صرف مسجدوں میں بددعاوں سے نیست و نابود کریں گے کیا ہم ان سے سبقت نہیں لے جاسکتے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپانیوں پر ایٹم بم سے حملہ ہوا توانہوں نے امریکہ کو بددعاوں سے شکست نہیں دی اور نہ ہی لڑائی کو وسعت دیکر ۔ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب ان کو شکست کسی اور ہی صورت میں دی جا سکتی ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ جاپان دنیا میں صنعتی انقلاب لے آیا اور چین سے پہلے یہ بات کہی جاتی تھی کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں "made in Japan " نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ جاپانی قوم نے ثابت کیا کہ بغیر لڑے آپ کسی قوم سے جیت سکتے ہیں ۔ ایک پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے اور بلیک بورڈ پر ایک لکیر کھینچی اور طلباء سے کہا کہ اس لکیر کوچھوئےبغیر اس لکیر کو چھوٹا کردو اب سارے طالبعلم سوچ میں پڑ گئے کہ بغیر چھوئے لکیر کو چھوٹا کیسے کرسکتے ہیں۔ کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب نے ایک لمبی سانس کھینچ کر اسی لکیر کے نیچے ایک اور متوازی لمبی لکیر کھینچ دی اور کہا کہ میں نے بغیر لکیر چھوئے دوسرے لکیر بڑی کھینچ دی اب پرانی لکیر اس بڑی لکیر کے سامنے چھوٹی ہوگئی ہے ۔ یہی فارمولہ دنیا میں استعمال کرکے آپ بڑے بن سکتے ہیں بجائے کسی کی ٹانگیں کھینچنے کے ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا ۔کسی امریکی کو اپنے ملکوں میں مارنے سے بہترہے ان امریکیوں کو اپنے ملک میں لا کر سیاحت میں ان کے جیبوں سے پیسے نکالیں ۔دنیا کو اپنے ملک میں بلا کر اپنی اکانومی بہتر کرنے کی کوشیش کریں۔ اس قتل و غارت سے ان امریکیوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ان کو شکست دینی ہے تو اپنے آپ کو آگے بڑھانا ہے یہی کام سپین میں ہوا انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اوران کی مساجد اور ان کے تعمیرات کو توڑنا شروع کیا لیکن جب انہیں عقل آئی تو انہوں نے دوبارہ انہیں تعمیرکیا اور اب دنیا انہی تعمیرات کو دیکھنے کے لئے آتی ہے اور ڈھیروں زرمبادلہ چھوڑ جاتی ہے ۔ ہم اپنے آپ کو بت فروش کے بجاے بت شکن کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن انہی بتوں سے ہم سیاحت میں کثیر زرمبادلہ کما سکتے ہیں ۔بات صرف اس فلسفہ کو سمجھنے کی ہے۔ اس فلسفہ میں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا غیرت اور انا بھی کوئی چیز ہوتی ہے ہمیں غربت قبول ہے لیکن ہم اپنی اناپرکوئی سمجھوتا نہیں کریں گے لیکن میں سمجھتا ہوں خوار ملا کی بات بھی کوئی نہیں سنتا جب تک آپ اقتصادی طور پر بہتر نہیں ہوتے آپ کی کوئی بات سنتا ہی نہیں بات بھی مالدار قوموں کی سنی جاتی ہے غریب کوتو بھائی بھی کاٹنے کو دوڑتا ہے اور خالی پیٹ آپ صرف پیٹ کا ہی سوچیں گے ۔کچھ قومیں صنعتی انقلاب لائیں ،کچھ تعلیمی انقلاب اور کچھ مالی انقلاب ۔ کچھ قوموں نے سسٹم دیا کچھ قومیں آٹوموبایلز میں آگئی جرمن سے گاڑیاں فرانس سے مشینری ، اٹلی سے مشینیں اور فیشن سویٹزرلینڈ سے گھڑیاں اور بہت کچھ لیکن ہم ان سے کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔اب تک ہم صرف مذہبی فرقے ہی امپورٹ کرسکےصرف نفرتیں خریدی مار دھاڑ اور ایک دوسرےپرفتووں کی گیم کھیلی ہم میں 50 فیصد لوگ نیم عالم بنے ہوئے ہیں ہر بندہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ۔اگر ہم خود ٹھیک ہونگے تو ہمارے لیڈرز بھی ٹھیک ہو جاینگے پھر ہمیں کوئی بھی امریکہ کی طرح ترقی کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ منزل بہت قریب ہے صرف اٹھنے کی دیر ہے۔
Journey to Washington
0
September 23, 2019
ریاست ہائے امریکہ ایک سپرپاور ہے اور پوری دنیا میں اپنی بادشاہت قائم کیے ہوئے ہے ۔انہوں نے یہ مقام کسی بابا کے مزار پر جا کر حاصل نہیں کیا اور نہ ہی دعائیں مانگ کر ۔ ان کو زوال بھی میرے اور آپ کے مسجد میں بیٹھ کر امام صاحب کے جمعے کے خطبے میں بربادی کی بددعا کی وجہ سے آسکے گا ۔ہم کب تک امریکہ اور امریکی قوم کو صرف مسجدوں میں بددعاوں سے نیست و نابود کریں گے کیا ہم ان سے سبقت نہیں لے جاسکتے۔ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپانیوں پر ایٹم بم سے حملہ ہوا توانہوں نے امریکہ کو بددعاوں سے شکست نہیں دی اور نہ ہی لڑائی کو وسعت دیکر ۔ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اب ان کو شکست کسی اور ہی صورت میں دی جا سکتی ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ جاپان دنیا میں صنعتی انقلاب لے آیا اور چین سے پہلے یہ بات کہی جاتی تھی کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہوگا جہاں "made in Japan " نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ جاپانی قوم نے ثابت کیا کہ بغیر لڑے آپ کسی قوم سے جیت سکتے ہیں ۔ ایک پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے اور بلیک بورڈ پر ایک لکیر کھینچی اور طلباء سے کہا کہ اس لکیر کوچھوئےبغیر اس لکیر کو چھوٹا کردو اب سارے طالبعلم سوچ میں پڑ گئے کہ بغیر چھوئے لکیر کو چھوٹا کیسے کرسکتے ہیں۔ کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب نے ایک لمبی سانس کھینچ کر اسی لکیر کے نیچے ایک اور متوازی لمبی لکیر کھینچ دی اور کہا کہ میں نے بغیر لکیر چھوئے دوسرے لکیر بڑی کھینچ دی اب پرانی لکیر اس بڑی لکیر کے سامنے چھوٹی ہوگئی ہے ۔ یہی فارمولہ دنیا میں استعمال کرکے آپ بڑے بن سکتے ہیں بجائے کسی کی ٹانگیں کھینچنے کے ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا ۔کسی امریکی کو اپنے ملکوں میں مارنے سے بہترہے ان امریکیوں کو اپنے ملک میں لا کر سیاحت میں ان کے جیبوں سے پیسے نکالیں ۔دنیا کو اپنے ملک میں بلا کر اپنی اکانومی بہتر کرنے کی کوشیش کریں۔ اس قتل و غارت سے ان امریکیوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ان کو شکست دینی ہے تو اپنے آپ کو آگے بڑھانا ہے یہی کام سپین میں ہوا انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اوران کی مساجد اور ان کے تعمیرات کو توڑنا شروع کیا لیکن جب انہیں عقل آئی تو انہوں نے دوبارہ انہیں تعمیرکیا اور اب دنیا انہی تعمیرات کو دیکھنے کے لئے آتی ہے اور ڈھیروں زرمبادلہ چھوڑ جاتی ہے ۔ ہم اپنے آپ کو بت فروش کے بجاے بت شکن کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن انہی بتوں سے ہم سیاحت میں کثیر زرمبادلہ کما سکتے ہیں ۔بات صرف اس فلسفہ کو سمجھنے کی ہے۔ اس فلسفہ میں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا غیرت اور انا بھی کوئی چیز ہوتی ہے ہمیں غربت قبول ہے لیکن ہم اپنی اناپرکوئی سمجھوتا نہیں کریں گے لیکن میں سمجھتا ہوں خوار ملا کی بات بھی کوئی نہیں سنتا جب تک آپ اقتصادی طور پر بہتر نہیں ہوتے آپ کی کوئی بات سنتا ہی نہیں بات بھی مالدار قوموں کی سنی جاتی ہے غریب کوتو بھائی بھی کاٹنے کو دوڑتا ہے اور خالی پیٹ آپ صرف پیٹ کا ہی سوچیں گے ۔کچھ قومیں صنعتی انقلاب لائیں ،کچھ تعلیمی انقلاب اور کچھ مالی انقلاب ۔ کچھ قوموں نے سسٹم دیا کچھ قومیں آٹوموبایلز میں آگئی جرمن سے گاڑیاں فرانس سے مشینری ، اٹلی سے مشینیں اور فیشن سویٹزرلینڈ سے گھڑیاں اور بہت کچھ لیکن ہم ان سے کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔اب تک ہم صرف مذہبی فرقے ہی امپورٹ کرسکےصرف نفرتیں خریدی مار دھاڑ اور ایک دوسرےپرفتووں کی گیم کھیلی ہم میں 50 فیصد لوگ نیم عالم بنے ہوئے ہیں ہر بندہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ۔اگر ہم خود ٹھیک ہونگے تو ہمارے لیڈرز بھی ٹھیک ہو جاینگے پھر ہمیں کوئی بھی امریکہ کی طرح ترقی کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ منزل بہت قریب ہے صرف اٹھنے کی دیر ہے۔