Wealth Games And Pakistan


پاکستان میں دولت کا کھیل جنون اختیار کر چکا ہے۔ جمہوریت اور پارلیمانی بالا دستی کی آڑ میں چند گھرانے تمام قومی ذرائع  پیداوار پر قابض ہیں۔ دولت کی غیر مساوی اور نامنصفانہ تقسیم کا وحشیانہ کھیل جس درنگی سے پاکستان کی گلی کوچوں میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس کی مثال آج کی مہذب دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ پاکستان کی پارلیمان یعنی قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا کلب بن چکی ہیں۔ ارکان پارلیمان ہر سطح پر اپنے مفادات کے لئے قانون سا زیاں کر رہے ہیں۔ انہیں ریاست اور اس کے صلاحیت کاروں اور اپنے کروڑوں رائے دہندگان کی معاشی اور سماجی زندگی بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
            پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی شرح ساری دنیا سے کم ترین سطح پر ہے ارکان پارلیمنٹ ٹیکسوں کے نظام کے حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے  جان بوجھ کر ایسے چور دروازے چھوڑتے ہیں جس کے ذریعے ٹیکس چوری میں آسانی ہو سکے اور انہیں ٹیکس سے چھوٹ مل سکے۔ بیرون ملک سے آنے والی رقوم ہر ٹیکس سے مستثنٰی ہیں۔  اس قانون کی اڑ میں کالا دھن سفید کرنے کا مکروہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ قریب ترین دوبئی تو اس کھیل کا مین مرکز بن چکا ہے۔ جہاں کسی جانچ پڑتال کے بغیر کالا دھن سفید کیا جاتا ہے۔
پارلیمان میں جاگیردار ارکان کی اکثریت نے زراعت پر ٹیکس کو ناممکن بنا دیا ہے۔جوکہ پڑھے لکھے شہری اور متوسط طبقے کی توہین ہے۔ جن سے انکم ٹیکس انکی تنخواہ سے براہ راست کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ جنرل سیلز ٹیکس سمیت لا تعداد بلا واسطہ ٹیکس انہیں روزانہ کی بنیاد پر ادا کرنے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ایک ماچس کی ڈبیا خریدنے میں بھی آپ سے ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ ان لوگوں یعنی اشرافیہ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے پاکستان کے غیر منصفانہ ٹیکس نظام کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ یہ نظام سرمایہ داروں اور جاگیرداروں وڈیروں اور خوانین کا بنایا ہوا ہے اور صرف ان کے مقاصد پورے کرتا ہے۔ حکومت کو  ناکا فی ٹیکسوں کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے کشکول گدائی لیکر عالمی سطح پردر در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔  غیر ملکی قرضے اور امداد لینی پڑتی ہے۔ عوام کی صحت اور تعلیم کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا اور کشکول گدائی ہر سال مہا کشکول  بنتا جا رہا ہے۔
اب تو یہ عالم ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے اپنے ممالک میں قوموں کی تقدیر کے فیصلے کر رہے ہیں۔ قانون سازی ان کے خواہشات کے مطابق ہو تی ہے۔ اب یہ لوگ ان داتا بن کر اپنے ملک و قوم کے مستقبل کا تعین کر رہے ہیں۔ اعلی معیار زندگی صرف ان کا استحقاق بن چکا ہے۔ جبکہ عوام الناس دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ خوشحال زندگی اور آگے بڑھنے کے مساوی مواقع صرف خواب بن کر رہ گئے ہیں۔
امریکی کانگرس ہو یا برطانوی دارالعوام   ۔ بھارتی لوک سبھا ہو یا پھر پاکستان کی قومی اسمبلی ہر جگہ ان امرا کا سکہ چل رہا ہے ۔ نئی اصلاحات کے نام پر معاشی قوانین میں ترامیم  ، بڑے کاروباروں میں ٹیکسوں کی چھوٹ یا تخفیف کے ساتھ ناگزیر عوامی سہولیات کی فراہمی   ،  ہر وقت نئے ٹیکس لگا کر متوسط طبقے کی کمر توڑی جا رہی ہے ۔ دولت کے اس بہیمانہ کھیل نے انسانی اقدار کا جنازہ نکال کر سماج کا چہرہ مسخ کرد یا ہے۔
پاکستان پر مکمل طور پر جاگیرداروں  ، سرمایہ کاروں  ، وڈیروں اور خوانین کا قبضہ ہو چکا ہے۔ حتٰی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے عہدوں اور تنظیموں پر بھی امراء قابض ہیں۔ غریب عوام تو صرف انکا منہ تکتے رہتے ہیں۔ ان کو صرف زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے سنائے  جارہے ہیں۔ ان کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ قطاروں میں کھڑے ہوکر ان امراء کو ووٹ دینا ہے۔ اور اس کے بعد فاقوں میں زندگی گزارنا ہے یا افلاس سے تنگ آکر خودکشیاں کرنی ہیں۔ اپنے بچوں کو غربت سے تنگ اکر یا تو قتل کرنا یا بیچنا اور یا خیراتی اداروں میں پالنے کے لئے حوالے کرنا ہے جب کسی ملک میں ایسا انسانیت کش ماحول اور شرمناک حالات پیدا ہو جائیں کہ غریب کے لئے روز گار ناپید ہوجائے۔ تعلیم اور علاج معالجے سے محروم رہے۔ انصاف ناپید ہوجائے۔ تو خونی انقلاب کا راستہ کھل جاتا ہے ۔ یہی حالات پاکستان میں پیدا ہو چکے ہیں۔ اب انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ  دیتا کوئی   موسٰی   طلسم ساحری
Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.