عظیم انسان





مشہور کہاوت ہے کہ محنت میں عظمت ہے ۔ لیکن اس کہاوت سے بھی زیادہ مشہور چچا غالب ہیں جنہوں نے اس کو غلط ثابت کر دکھایا۔ بغیر محنت کے گھر بیٹھے صرف ایک اردو دیوان اور دوستوں کو چند بے تکلف خطوط لکھ کر بے مثال عظمت پائی۔ چچا غالب پر ہی کیا موقوف، ہزارو مشاہیر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کبھی محنت کا منہ تک نہ دیکھا اور پھر بھی عظیم کہلائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سقراط سے آئن سٹائن تک ، افلاطون سے چارلس ڈارون تک اور جہانگیر سے ونسٹن چرچل تک بڑے بڑے کاہل اور آرام پسند لوگ عظیم کہلائے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود ہمارے والدین اور اساتذہ ہم سے محنت ہی کروانے پر بضد رہتے ہیں اور اسی کو عظمت کے حصول کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ادھرمیری بیتاب تمنا اور نازک مزاج عمل ِ پیہم کے صبر آزما مراحل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا لہذا میں ہمیشہ سے ایسی عظمت کا متمنی و متلاشی تھا جو فوری بھی ہو اور سہل الحصول بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ تھا کہ ہم ہندوستان اور ایران کے بیچ و بیچ بسنے والی قوم ان لوگوں کی برتری آسانی سے تسلیم بھی نہیں کرتے جن کا فکری و فنی ارتقاءہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ہو اور جنہوں نے ہمارے دیکھتے دیکھتے عظمت کی منازل طے کی ہوں۔ ہم تو مافوق الفطرت اور غیر معمولی شخصیات ہی کا دم بھر تے ہیں جوبنے بنائے عظیم ہوں یا کم از کم ہماری آنکھوں کے سامنے کبھی محنت و ریاضت میں مبتلا نہ پائے گئے ہوں۔ ہماری نظر میں معجزاتِ فن کی مثال جادوئی کرتب کی سی ہے جو جب تک سمجھ سے بالاتر رہے تو جادو کہلاتا ہے اور جب سمجھ آ جائے تو اپنا وقار کھو کر محض شعبدہ بازی بن کے رہ جاتا ہے جسے کوئی بھی ایرا غیرا مشق کر کے سیکھ سکتا ہے ۔ خود ہی انصاف سے کہیئےکہ آپ کی پسندیدہ فلموں کے وہ جذباتی مناظر جنہیں دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں ، اگر ان کی عکسبندی کے دوران آپ سیٹ پر موجود رہتے اور "رول کیمرا"اور "کٹ"صداؤں کے کے درمیان ہیرو کا جھوٹا عشق اور ہیروئن کے گلیسرین آمیز آنسو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو کیا یہ مناظر آپ کو یہ مزہ دے پاتے ؟۔

            دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عظیم لوگ پیدائشی طور پر عظیم ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ بادی النظر میں صحیح (اور اپنے مطلب کا) کا معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر آپ بالغ نظر اور مردم شناس واقع ہوئے ہیں تو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال اس وقت اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں (غبی قارئین کے لئے وضاحت کرتا چلوں کہ میں اپنی بات کر رہا ہوں)۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کی طرح خود بڑا آدمی بھی اپنی عظمت سے بے خبر ہوتا ہے تا وقتیکہ اس کے ہاتھوں کوئی کارنامہ سرزد نہ ہو جائے۔ اس کے بر عکس خاکسار کو پیدا ہوتے ہی اپنی عظمت کا احساس ہو گیا تھا تا ہم لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا خاصا مشکل ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں جو اوامر مانع رہے ان میں ویسے تو زمانے کی نا قدر شناسی کے علاوہ میری گفتار کی راستی اور کردار کی کجی بھی شامل ہیں، لیکن سب سے بڑی مشکل یہ درپیش آئی کہ میری عظمت کی حقیقت فی الحال میرے ذہن تک ہی محدود تھی اور لوگوں کی "خوگرِ پیکرِ محسوس نظر"کسی ٹھوس مادی شکل میں اس کے اظہار کی متقاضی تھی۔ سوال یہ تھا کہ اپنی عظمت کا لوہا منوانے کے لئے زندگی کا کون سا میدان چنا جائے۔

            جن دنوں تانگے میں بیٹھ کر اسکول جاتا تھا تو ایک عظیم کوچوان بننے کا خواب دیکھتا تھا۔ ایک خوبرو کوچوان جو سیاسی شعور اور جذبہ حریت میں منٹو کے منگو سے بھی دو ہاتھ آگے تھا ۔ نیک شہرت کا حامل یہ ہر دلعزیز کو چوان تانگہ چلاتے ہوئے بار بار راستے میں لوگوں کے سلام کا جواب ہاتھ اٹھا اٹھا کر سیاسی انداز سے دیتا اور یکا یک ایک چھوٹے سے بچے کو کسی گاڑی کی زد میں آتا دیکھ کر زقند بھرتا اور اس کی جان بچا کر پنڈی میں آگرہ کا منظر پیدا کر دیتا جب شہنشاہ بابر نے ایک غریب ماں کے بچے کو بد مست ہاتھی سے بچایا تھا۔ پھر کپڑے جھاڑ کر ہجوم کے تحسین آمیز نعروں سے بے نیاز آگے بڑھتا ، بچے کے گال تھپتھپاتا اور اس کی ماں کو آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کر کے ساتھ کھڑی اس کی خوبرو خالہ کی ستائشی نگاہوں اور مہربان مسکراہٹ کے جواب میں مونچھوں کو تا دیتا ہوا نسیم حجازی کے ناولوں کے کسی کردار کی طرح مجاہدانہ انداز میں گھوڑے کو ایڑھ لگا دیتا۔

            نواب ایسا کہ اپنے ہم پیشہ تانگہ بانوں کی طرح تانگے میں چھ سواریاں لاد کر خود نیچے بیٹھنے کے بجائے پانچ ہی سواریاں بٹھاتا اور شان سے سیٹ پر بیٹھ کر تانگہ چلاتا۔ درویش ایسا کہ جب کوئی سواری کرایہ کم دیتی تو نیچوں کی طرح لڑنے بھڑنے کے بجائے "تنک بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت"دیتا۔ایماندار ایسا کہ کوئی اگر غلطی سے اپنا بیگ تانگے میں بھول جاتا جس میں لاکھوں روپے نقدی ہوتی تو بھلے کتنا ہی دل للچاتا کہ اس پیسے سے پیسٹری لے کر کھا لی جائے لیکن عظیم کوچوان فی الفور اس بیگ کے مالک کو ڈھونڈ کر اس کی امانت اس کے حوالے کرتا۔

            پھر آہستہ آہستہ عظیم کوچوان بننے کا شوق کم ہوتا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوئی کی تانگے کی جگہ چنگ چی رکشہ مقبول ہونے لگا تھا جس کی نمایاں خصوصیات میں سبک رفتاری کے علاوہ یہ سہولت بھی شامل تھی کہ چھہ (بسا اوقات سات) سواریوں کی موجودگی میں بھی نیچے نہیں بیٹھنا پڑتا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ گھوڑوں کی آدابِ قضائے حاجت سے ناواقفیت اور تبخیرِ معدہ ( جس کا اظہار ہر سپیڈ بریکر پر ہوتا تھا)سے میرے خوابوں کا ماحول کچھ آلودہ ہونے لگا تھا۔ ویسے بھی اتنا سمجھدار تو میں ہو ہی گیا تھا کہ کوچوانی میں اپنے زورِ تخیل سے میں بھلے کتنا ہی سیاسی اور مجاہدانہ رنگ کیوں نہ بھر لوں ایک کوچوان کو کوئی کبھی عظیم نہیں مانے گا۔ کیونکہ اس وقت تک جتنی فلمیں میں دیکھ چکا تھا ان میں سے ایک میں بھی کوئی کوچوان ہیرو نہ آیا تھا۔

            تھوڑا بڑا ہوا تو انگریزی کے استاد طارق صاحب کی لیدر کی جیکٹ اور سردیوں کی خوشگوار دھوپ میں چلغوزے کھاتے ہوئے میڈم شمیم کے ساتھ گہرے علمی مباحث نے میرے دل میں ایک عظیم استاد بننے کا ارمان جگایا۔ ایک جواں سال حلیم استاد جو ہوم ورک نہ کر کے لانے پر بجائے بھڑک اٹھنے کے شفقت سے مسکرا دیتا اور عظیم کوچوان کی طرح آئندہ محتاط رہنے کی ہدایت کرتا۔وہ کلاس میں اکیلے چائے بسکٹ سموسے کھا کربچوں کے جذبات مجروح نہ کرتا بلکہ جب کچھ کھانے کو منگاتا تو (سوائے اس کمینے ناصر کے جو ہمیشہ اول آتا اور ساری لڑکیوں کا مرکزِ نگاہ تھا) سب کو پوچھتا۔ ہمارے ریاضی کے استاد کے برعکس جو پوری مشق سمجھاتے اور ایک سوال سمجھ نہ آتا وہ ایک سوال سوال سمجھاتا اور ساری مشق سمجھ آجاتی۔ وہ بچوں پر سارا سال ایسے ہی مہربان رہتا جیسے ہمارے پرنسپل صاحب سالانہ تقریبِ تقسیمِ انعامات کے موقع پر مہمانِ خصوصی کی موجودگی میں ہم سے بات کرتے تھے۔

            لیکن اس کہانی میں بھی کوئی کوئی ہیروئن ضرور ہوتی تھی۔ یہاں بھی جب کسی کو کوئی علمی مشکل درپیش آتی تو اور عظیم استاد یعنی آپ کاخادم اس مشکل کو حل کرتا تو بادامی آنکھوں کا کم از کم ایک آدھ جوڑا ضرور بالضرور داد و تحسین کے جام پلاتا۔ اسکول کی راہداریوں میں آتے جاتے ہر بار کسی سے ایسے ٹکر ہو جاتی جیسے اپنا عظیم استاد اور اسکول کی ساری استانیاں نا بینا ہوں۔ اور کتابیں زمین پر گرتیں تو ان میں سے مور کے پنکھ اور سوکھے ہوئے پھول نکل کر زمین پر بکھر جاتے (اس زمانے میں دورِ حاضر کی درس گاہوں کی طرح کتابوں کے اندر ضبطِ تولید کے اسباب رکھنے کا رواج نہ تھا)۔ پسِ منظر میں "اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں" جیسی غزلیں سنائی دیتیں۔ نجانے ہندی فلموں کی طرح میرے خوابوں میں عظیم مقاصد کا حصول ہمیشہ کسی حسینہ کے سنگ ہی کیوں ہوتا تھا۔ ۔خواب نہ ہوئے سگریٹ یا شیونگ کریم کے اشتہارات ہو گئے۔ خیر پھر جب پرائیویٹ اسکولوں میں تنخواہ کے نام پر اساتذہ کے ساتھ ہونے والے مذاق کا پتہ چلا تو میں نے عظیم استاد بننے کا ارادہ بھی ترک کر دیا۔ خدا جانے طارق صاحب کو لید رکی جیکٹ اور میڈم شمیم کو چلغوزوں کا بندوبست کرنے کے لئے کتنی ہی ٹیوشنز پڑھانی اور کمیٹیاں ڈالنی پڑی ہونگیں۔

            ایک دفعہ تہجد کے وقت ایک فلمی رسالے میں کیٹ ونسلیٹ کی تصویر سامنے رکھ کر مصورِ عالم کی تخلیقی ہنر مندی کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ اچانک والد صاحب کمرے کی بتی جلتی دیکھ کر اندر داخل ہوئے۔ میں نے فوراً کتابوں کے ڈھیر سے ایک کتاب اٹھا کر مسجد میں سیپارہ پڑھنے والے بچوں کے انداز میں با آوازِ بلند پڑھنی شروع کر دی۔وہ آدھ گھنٹے تک دروازے پر ساکت کھڑے رہے۔ شاید اس وعظ کو پینے کی کوشش کر رہے تھے جو پچھلے خطاب (ایک ہفتہ قبل جب میں اسکول سے بھاگتا ہوا پکڑا گیا تھا) کے بعد سے پَند پَند جوڑ کر میرے لئے تیا ر کیا تھااور جلتی بتی نے جس کے عدم سے وجود میں آنے کی امید روشن کر دی تھی۔ ادھر میں اس دوران گویا ان کی آمد سے بے خبر "مائی ٹوسس"اور "می اوسس"پڑھتا رہاجو ان کے جانے تک مجھے یاد بھی ہو گیا۔ اس واقعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے کمرے میں موجود تمام فلمی رسالوں اور دیگر سامانِ لہو و لعب کو خفیہ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ دروازے کی چٹخنی بھی ٹھیک کر والی جو ایک مدت سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی زندگی میں پہلی مرتبہ مسلسل آدھ گھنٹے تک حیاتیات کی کتاب کا کا مطالعہ کرنے سے یہ انکشاف ہوا کہ اس علم سے میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں اور جس آسانی سے میرے ذہن نے اس دقیق علم کے ان انتہائی اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے یہ یقینا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔

            ایک خوش شکل باوقار ڈاکٹر جو بی اے کا امتحان دے کر معقول رشتے کے انتظار میں گھر بیٹھی ڈائجسٹوں کے ورق الٹتی دوشیزاں کے خوابوں میں بے تکلف آتا جاتا۔اور دن بھر کپڑے دھونے کے بعد شام کو ہو جانے والی تھکاوٹ اور ہلکے بخار کی صورت میں جلتی ہوئی پیشانیوں ہاتھ رکھ کر مسیحائی کی تاثیر روح تک اتارا کرتا۔ جب سفید گان پہنے گلے میں اسٹیتھسکوپ لٹکائے اٹھلاتی ہوئی نرسوں کے جلو میں وہ وارڈ میں آتا تو مریضوں کے لواحقین کا ہجوم اسے گھیر لیتا۔ وہ سب کو تسلی دیتا ہوا آگے بڑھتا اور کچھ ہی دیر میں وارڈ کے سارے مریض ایک ایک کر کے بھلے چنگے ہو کر دعائیں دیتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے۔ وہ بھر پور جوانی کے باوجود ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے دوران بھی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا اورخلاف، روایت سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی کے دوران اسی تندہی اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتا جو پرائیویٹ کلینکوں کا خاصہ ہے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ میرے ڈاکٹر بننے میں چار چھ سال ہی رہتے تھے کہ ایک دن والد صاحب نے روایتی والدین کی طرح میری امنگوں اور صلاحیتوں کے برخلاف مجھے ڈاکٹری کا خیال دل سے نکال کر اپنے ساتھ دکان پر جانے کا حکم سنا دیا۔ حاسدوں کا پروپیگنڈہ ہے کہ میں فیل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ایسا کرنا پڑا مگر میں اس الزام کی بھر پور تردید کرنا چاہوںگا۔ یہ سچ ہے کہ میرے نمبر کامیاب قرار پانے کے لئے (بورڈ کی طرف سے یکطرفہ طور پر) مقرر کردہ شرح سے ذرا کم آئے تھے اور اتفاق سے یہ فیصلہ بھی امتحان کے نتیجہ کے فوراً بعد ہی کیا گیا مگر ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔آپ کے سر کی قسم۔جھوٹ کہوں تو آپ کا مرا منہ۔۔۔کیا؟۔۔یقین آگیا؟۔۔اچھا۔

            اب صبح تڑکے اٹھ کر دکان پر جاتا ہوں اور رات گئے گھر لوٹتا ہوں عظیم بننے کا وقت ملتا ہے نہ ہی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ اب دیکھئے ناں! میرا خیال بھی یہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان ایک منظم اسلامی ریاست قائم کریں مگر مسلم لیگ کا وہ اجلاس ہی 1930میں ہو گیا جس میں یہ خیال پیش کیا جانا تھا۔ جیل نما سرکاری اسکولوں کا پڑھا ہوا اور قید و بند کے احساسات کا محرم ہوں۔ باآسانی "غبارِ خاطر"لکھ سکتا ہوں مگر وہ بھی مارکیٹ میں آچکی ہے۔ امریکہ اور آکسیجن دریافت ہو چکے، ایٹم بم اور پہیہ ایجاد ہو چکے، شیکسپیر " ہیملٹ"لکھ چکا، ایم ایم عالم ایک منٹ میں پانچ جنگی طیارے گرا چکے، کرنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ وہ دن جا چکے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے اور ایک سیب گر کر کششِ ثقل کا پتہ دے جاتا تھا۔ یا پنسلین جیسی طاقتور اینٹی بائیو ٹک ہاتھ باندھے فلیمنگ کی پیٹری ڈش میں حاضر ہوتی اور دست بستہ عرض گذار ہوتی کہ خدا کا واسطہ ہے مجھے دریافت کر لو گمنامی کے اندھیروں میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ نہ ہی یہ دور ان سادہ لوح لوگوں کا ہے جنہیں ارسطو نے کہا تھا کہ دس پونڈ کا وزن ایک پونڈ کی بہ نسبت زمین پر دس گنا رفتار کے ساتھ گرے گااور ان بھولے بادشاہوں نے اٹھارہ سو سال تک اس کی تصدیق نہ کی بالآخر گلیلیو ایک مینار سے دو مختلف اوزان کے گولے پھینک کر ہیرو بن گیا۔ اب تو ایپل اور مائیکرسافٹ ہی بناتے ہیں جو بنتا ہے اور امریکہ ہی کراتا ہے جو ہوتا ہے میں بھلا کیا کروں؟۔ سارے غیر معمولی کام میری پیدائش سے پہلے کوئی کر چکا ہے۔ اب صرف روز مرہ کے اکتا دینے والے معمولی کام رہتے ہیں جن میں عظمت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ ان میں سے زیادہ تر تو ہمارے فرائض میں شامل ہیں جن کے نہ کرنے پر ہمیں ملامت تو کیا جاتا ہے مگر کر لینے سے کوئی اضافی داد نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر ٹریفک کا سگنل اگر توڑو تو چالان ہو جاتا ہے اور نہ توڑو تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایک انسان جسے عظیم بننے کی جلدی ہو وہ بھلا ٹریفک کے اشارے پر رک کر اپنا وقت کیوں برباد کرے گا تاوقتیکہ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ اشارے پر رکنے سے ہمارے اندر عظمت کے احساس کو تقویت ملے۔ مثلاً جیسے ہی میں لال بتی پر رکوں تو فوراً اسی چوک میں محکمہ نیشنل ہائی ویزا اینڈ موٹر وے پولیس کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا جائے جس میں محکمہ کے سینیئر افسر ان اور وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ سمیت مختلف سماجی شخصیات شریک ہوں اور فضائی میزبانوں کا سا چست یونیفارم پہنے حسیناؤں کا ایک طائفہ ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لئے میرا استقبال کرے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کے سلسلے میں میری خدمات کو سراہا جائے اور حسب دستور کوئی تمغہ وغیرہ دیا جائے تو میرا اشارے پر رکنے کو دل بھی چاہے۔ حفظ مراتب پذیرائی اور مناسب تشہیر جس کام میں ہو گی وہ بھلا ہم کیوں نہ کریں گے۔ عمرے کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ایک عام آدمی جیسے ہی عمرہ کا  ارادہ کرتا ہے خاص بن جاتا ہے۔ دوست احباب اور رشتہ دار پھولوں کے ہار پہنا کر ائیر پورٹ چھوڑ کر آتے ہیں۔ جہاز کی سیر کے علاوہ اچھے ہوٹلوں میں قیام اور عمدہ کھانے کھانے کو ملتے ہیں۔پھر گناہوں کی تلافی اور پارسائی کا طمانیت بھرا احساس۔۔واپسی پر پھر شاندار استقبال اور اس کے بعد ایک ماہ تک مبارکباد کے سلسلے۔ ۔الغرض لاکھ سوا لاکھ میں ہم سلیبرٹی بن جاتے ہیں۔ اب بتائیے بھلا اس رقم سے اگر ہم قرض لوٹائیں ، کسی خیراتی ادارے کی یا کسی جوان بیٹی کے بوڑھے باپ کی خفیہ انداز سے مدد کریں تو عظمت کا یہ احساس کہاں سے آئے گا۔


            خیر۔۔کوئی مانے نہ مانے، میں جانتا ہوں کہ میں عظیم انسان ہوں اور اپنے سینے میں علم و ہنر اور خیر و برکت کے چھپے ذخائر رکھتا ہوں۔ وقت کی پابندی، ایفائے عہد، سخت کوشی، صبر، ایثار اور بے ریا نیکیاں وغیرہ تو میں کبھی نہ کر پاؤں گا مگر دل میں اپنے عظیم ہونے کا احساس لئے میں انتظار کروں گا کہ تاریخ کے اوراق سے کوئی کارنامہ محو ہو جائے اور میں اس کو دہرا کر عظیم کہلاسکوں۔




Post a Comment

2 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.