Bed Happens




مغرب کی آذان ہوتے ہی آواز آئی ( در کولاؤ کوا نأشام سی بأنگ دیدی لاݜ ہو دو ) دروازے کھول دو مغرب کی آزانیں ہو رہی ہیں برا ہوتا ہے یا آپ اس ( لاݜ ہو دو ) کا ترجمہ یوں کر لیں کہ اچھا نہیں ہوتا یعنی دروازے بند رہیں گے تو کچھ برا ہو جائے گا کچھ غلط ہو جائے گا یا گناہ ہو جائے گا وغیرہ مجھے اتنی تجسسانہ طبیعت کی بناء پر کچھ تجسس  ہوا اور کچھ تعجب بھی اور میں زیادہ دیر ضبط نہ کر سکا اور اس دروازہ کھلا رکھنے کی خاص مغرب کے وقت میں وجہ اور فلسفہ سوچنے لگا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے آخر آواز دینے والے یا والی سے پوچھ بیٹھا کہ جی آپ یہ مغرب کے وقت دروازہ  کھلا رکھنے پر کیوں اتنا زور دیتے ہیں اور اگر دروازہ بند رہے تو بقول آ پ کے برا ہوتا ہے گناہ ہوتا ہے یا اچھا نہیں ہوتا تو وہ برا کیا ہے جو ہوتا ہے اور وہ کیا اچھا ہے جو نہیں ہوتا میرے اس سوال پر پہلے تو کچھ دیر تک تو میری شکل کو تکنے لگا اور پھر یوں گویا ہوا ( ہائی تو کھال مفتی تھو ) یعنی آپ کس طرح کے مفتی ہیں یعنی آپ کو اتنا بھی نہیں پتا تو آپ کے مفتی ہونے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد جواب ملا کہ اس وقت میں ہمارے جو گزرے ہوئے جو لوگ ہیں یعنی فوت شدہ افراد ہیں ان کی ارواح آتی ہیں اور دروازہ کھلا  ہونے پر انہیں اندر آنے میں آسانی ہوتی ہے اور  اگر دروازہ بند ہو تو وہ ناراض ہو کر واپس چلی جاتی ہیں تو ہم اپنوں کی  روحوں کو ناراض کر کے واپس کیوں بھیجیں اور دروازہ کیوں بند رکھیں؟ اچھا۔۔۔تو یہ بات ہے؟ آج سمجھے تیرے رخسار پےتل کا مطلب یہ بات تو میرے  ناقص علم میں کبھی آئی ہی نہیں میں نے جو ٹوٹا پھوٹا مطالعہ کیا ہے اس میں تو میرے سامنے کبھی نہیں آیا کہ تیری محفل میں تو ہر بات پے پابندی ہے میں نے کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں ایک اور سوال کیا کہ جناب ( عالی یا عالیہ )آپ مجھے یہ بتائیں کہ سب سے پہلے تو ان روحوں کو اس سر شام  یہاں آنے کی ضرورت کیا ہے اور یا پھر میرے ناقص علم کے مطابق قرآن کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان نیک ہے تو اس کی روح علیین میں جائیگی اور اگر بد ہے تو اس کی روح سجین میں ہو گی لہذا علیین سے نکل کر اس گندی دنیا میں آنے کی ضرورت کیا ہے اور اگر خدا نہ خواستہ سجین میں ہے تو اسے وہاں سے نکل کر یہاں آنے کی اجازت کہاں سے ملی تو کہنے لگے ان ساری باتوں کا تو ہمیں نہیں پتا پر ہم نے یہی سنا ہے۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری  اور علامہ اقبال کی طرح ہاتھ ٹھوڑی سے تھوڑا اوپر اور رخسار سے ذرا نیچے رکھا اور کہنی کرسی کے بازو پہ لٹکا کر اسی موضوع پر سوچنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں ایسی کتنی ان گنت باتیں مشہور ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آواز ائی ( خانو ہامو  ہاتھ نہ تھا لاݜ ہو دو )  یعنی بیٹا ایسے ہاتھ مت رکھیں اچھا نہیں ہوتا ۔میں اس بات پر ایک بار پھر چونکا اور اپنے ہاتھ کو اسی انداز میں مزید پختہ کرتے ہوئے بولا جناب ایسے ہاتھ رکھنے یا ویسے ہاتھ رکھنے کا اچھے اور برے سے کوئی تعلق نہیں ہے اچھے اور برے کا تعلق انسان کے اچھے اور برے اعمال سے ہے۔ پھر میرے ذہن میں وہ ساری باتیں ایک فہرست کی شکل میں سامنے آنے لگیں اس فہرست  کے دماغ میں آتے ہی مجھے  بھائی جلال اور وطن کے چیف ایڈیٹر جناب منظور حسین بھائی یاد آئے جن سے آج دن میں اتفاقا ً ملاقات ہوئی تھی اور دونوں احباب نے رسالے کے لئے  مضمون لکھنے کا حکم دیا تھا تو میں نے سوچا چلیں (ثواب سی ثواب آں  خُرما سی خُرما )یعنی رسالے کے لئے مضمون بھی بن جائے گا  اور کچھ اس حوالے سے اگاہی  بھی ہو جائے گی کہ کس بات میں کتنی حقیقت ہے؟ اور کیا بات کتنی حد تک عوام میں بلا وجہ اور بغیر سند کے مشہور ہے؟ لہذا میں نے قلم  اور کاغذ سنبھالا اور اپنی استعداد کے مطابق کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑنے لگا اور الفاظ ملتے گئےاورمضمون بنتا گیا باقی رہا یہ سوال کہ یہ ہمارے یہاں ( لاݜ ہو دو ) یعنی برا ہوتا ہے کا مقولہ مشہور ہے تو اس کے بھی مخصوص معانی اور مخصوص مطلب ہے اور مزید کیا کیا باتیں ایسی ہیں جن میں( لاݜ ہو دو ) کا حکم ہم نے لاگو کیا ہے اس میں ذرا تفصیل پائی جاتی ہے لیکن لگتا ہے مضمون کچھ طویل  ہو گیا ہے اور آپ حضرات بو ریت سی محسوس کر رہے ہیں لہذا مزید بات اور ( لاݜ ہو دو ) کے مخصوص معنی  انشاءاللہ اگلے رسالے میں آپ کے سامنے پیش کرونگا اب آپ دیگر مضامین سے لطف اندوز ہوں
Tags

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.