بیڅاں گھینْرہ عجیبہ آنْسے ،گی څیز چے سیوں موٹھیوں آنْس کھیں سیویں تس ڇَہَیں یاں کوشش کرے لانْس ۔
برݜے اکثر خلقہ شندوں لا نیڙ بیں سے کھیں ظاہر بال تھی سیوں موٹھیوں تارہ ہونْسے __ایک قسمہ کاں ݜو تارہ واں ڇوپٹو ہوی تھو تسے سیں بَہول بناسے ،بَہولِ ملِ ڇا تارہ کھیر لا ہوں تھہ چے ڇکئ بَنا سے ،ڇکئ ملِ گُھردموݜہ لکھہ ڇا تارہ مُتہ ہوں تھہ چے تسے کفارویں ڇکئ بناسے ۔
بَہول کالاں مختلف موسموں مج ہیلاک وختاں کیریا غائب ہوگلے گتہ ڈاگی ہوی تھی ،چے ایک وخت تسیں جیٹھ و تے اہڑ مج ہوی تھو ،پُریں گھیں زمیندارہ خلقہ بَہولیاں باڇھ بنییاں وختاں کیریا انتظار کراں سے چے مکئ رشاں ،ایں کم لکھہ دِسہ ہوں تھہ چے تسی مج بناسے مکئ مڑنئ ہوئ تھی ،ہم ݜیں دِسوں مہ رالے پُرخ ہم وی تھو چے تسے" بَہول څھر" بناتھہ !پُریں مُھلا بناسے چے کوں کھینگی لا بَہول بیئ پناہ ہوی تھی ہم ݜو قبلاں صحیح کھینگ تھی ۔
اسی نہ علاوہ ماخاماں تارُ ،لوواں تارُ ،زہرہ آں ݜیں قسماں تارہ ہم سیواں پنیاک آنْسے ۔
دھانْکہ تارہ واں مجموعاں کیریا ،کَرَو ،چھالی ،چھالٹو ،پالنْگ آں شیخیلہ واں ناں ہم دیلانْس خو ایں روایات شاذ آنْسی ۔
برِݜے کلہ کہ ڙھیکجیلی نیمَلی ہوندو شمالاً جنوباً اڙیں باریک لکھہ کھیرہ ہوی تھی چے تسے پان/پنہ بناں سے ،روایت مشہور آنسی چے او حسین صاحبیں گُھویں پان تھی ملِ لکھی پان تسیں بڅھریں تھی ،روایت غلط ہوں ہی تھی ،خو اَسِ نہ بیڅاں اباواجدادویں اہلبیت ملِ مینہ محبت ہُم ظاہر ہوی تھی .
ترجمہ ::::
ہمارے بڑے عجیب لوگ تھے ،جو چیز انکے سامنے رہی اسے ٹٹولنے کی کوشش کرتے رہے
موسم گرما میں عموماً چھتوں پر سوتے تھے تو ظاہر سی بات ہے انکے سامنے ستارے ہوتے تھے ،ایک قسم کے چھ ستاروں کے گچھے کو یہ لوگ "بَہول "کہتے تھے ،ساتھ ہی تین ستارے ایک ہی لائین میں ہوتے ہیں ،اسے "ڇکئ "کہتے تھے ،اسی ڇکئ کے ساتھ تین دھندلے سے ستارے اور ہوتے ہیں جسے "کفارویں ڇکئ "کہتے تھے ،روایت تھی کہ قیامت کے دن انہی میزانوں سے مسلمانوں اور کفار کا حساب کتاب کیا جائے گا ۔
بَہول سال کے مختلف موسموں میں کچھ عرصے کیلیے غائب ہوکر دوبارہ نمودار ہوتی ہے ،ان میں سے ایک زمانہ "جیٹھ "اور "اہڑ"کے درمیان کی کوئ خاص مدت ہوتی ہے ،پرانے بڑے زمیندار اسی وقت "بَہولیاں باڇھ "کا انتظار کرتے تھے کہ مکئ کی بوائ کریں ،یہ انکے ہاں روایت تھی کہ ان دنوں میں مکئ کی بوائ کرنے سے مکئ کی فصل اچھی ہوتی ہے ۔انہی دنوں میں رات کو اولے بڑتے ہیں جسے "بَہول څھر "کہتے ہیں ،
پرانے علما "بَہول "کے آسمان پر سے ڈوبنے والے جگہ سے قبلہ رخ کا صحیح تعین کرتے تھے ۔
اسکے علاوہ ،شام کا ستارہ ،صبح کا ستارہ ،زہرہ وغیرہ نام کے ستارے بھی وہ لوگ پہچانتے تھے ۔
اسکے علاوہ بہت سے ستاروں کے مجموعوں کو مختلف نام دیے گئے تھے ،جیسے "کَرَو "(شیر)،"چھالی"(بکری ),چھالٹو (بکری کا بچہ ).پالنگ اور شیخیل (جولاہا )،اگرچہ ان ناموں کے روایات شاذ ہیں ،لیکن بہر حال روایات موجود ہیں ۔
موسم گرما میں جب مطلع بالکل صاف ہوتا ہے تو آسماں پر شمالاً جنوباً بادلوں کے باریک لکیریں ہوتی ہیں ،جنہیں "پان/پنہ "(راستہ/راستے )"کے نام دیے گیے تھے ۔روایت تھی کہ یہ سیدنا حسین رض کے گھوڑے کا راستہ ہے ساتھ میں چھوٹی لکیر اس گھوڑے کے بچے کا ۔روایت غلط ہوسکتی ہے لیکن اس سے انکی اہلبیت سے محبت و الفت کا اندازہ ہوتا ہے ۔