دی گورج: ایک پراسرار اور سنسنی خیز کہانی
یہ کہانی ایک ایسی جگہ کی ہے جہاں عام انسانوں کا جانا سختی سے منع ہے۔ ایک سنسان اور رازوں سے بھری وادی، جس نے امریکہ اور روس کے درمیان ایک قدرتی سرحد بنا دی ہے۔ اس گہری اور خوفناک کھائی کے دونوں اطراف ایک ایک ٹاور موجود ہے، جہاں دونوں ممالک کی طرف سے ایک بہادر سپاہی کو تعینات کیا جاتا ہے۔ ان ٹاورز پر موجود گارڈز کا واحد کام اس پراسرار کھائی میں چھپے نامعلوم خطرات کو باہر آنے سے روکنا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس کھائی میں کیا چھپا ہے جسے دنیا سے چھپایا جا رہا ہے؟ اور یہ جگہ باقی دنیا سے اتنی خفیہ کیوں رکھی گئی ہے؟
آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں 2025 میں ریلیز ہونے والی ایک شاندار سروائیول ایکشن اور ایڈونچر فلم دی گورج کے بارے میں۔ یہ فلم نہ صرف ایکشن اور سنسنی سے بھرپور ہے بلکہ اس میں جذبات، راز، اور محبت کی ایک ایسی کہانی بھی ہے جو آپ کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔
کہانی کا آغاز
کہانی کی شروعات تراسا نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے، جو ایک اندھیری اور سنسان غار میں چھپی ہوئی ہے۔ تراسا ایک خطرناک سناپر اور کنٹریکٹ کلر ہے، جو اپنے اگلے ہدف کے انتظار میں ہے۔ کچھ ہی دیر میں کئی کلومیٹر دور ایک جہاز لینڈ کرتا ہے۔ جیسے ہی جہاز سے ایک شخص باہر نکلتا ہے، تراسا اپنی سناپر رائفل سے نشانہ لگاتی ہے اور ایک ہی گولی سے ہدف کو ہٹ کر دیتی ہے۔
دوسری طرف کہانی ہمیں فلم کے دوسرے مرکزی کردار لیوائی سے ملواتی ہے۔ لیوائی کی زندگی اتنی آسان نہیں جتنی باہر سے نظر آتی ہے۔ اسے اکثر خوفناک خواب ستاتے ہیں، جو اس کی نیند کو کوسوں دور بھگا دیتے ہیں۔ جب یہ خواب حد سے زیادہ پریشان کرنے لگتے ہیں، تو لیوائی اپنے گھر سے باہر نکل آتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا، پرسکون رات، اور سمندر کی لہریں اس کے سکون کا واحد ذریعہ ہیں۔ شاعری لکھنا اس کی واحد راحت بن جاتا ہے۔
ایک رات سمندر کے کنارے اپنے خیالوں میں گم لیوائی کو اچانک اس کے فون پر ایک پیغام موصول ہوتا ہے۔ پیغام میں لکھا ہوتا ہے کہ اسے فوراً کیمپ پینگلٹن پہنچنا ہے، جو ایک میرین کور بیس ہے۔ بغیر وقت ضائع کیے لیوائی بیس پر پہنچتا ہے، جہاں اس کی ملاقات ایک سخت مزاج اور پیشہ ور خاتون بار تھو سے ہوتی ہے۔ بات چیت کے دوران پتا چلتا ہے کہ لیوائی کوئی عام انسان نہیں، بلکہ ایک سابق فوجی افسر اور خطرناک سناپر رہ چکا ہے۔ بار تھو اس سے کہتی ہے کہ وہ اسے ایک مشن پر بھیجنا چاہتی ہے، جو صرف وہی کر سکتا ہے۔ لیکن مشن پر بھیجنے سے پہلے بار تھو ایک اہم سوال پوچھتی ہے: "اگر تم اس مشن پر گئے، تو کیا تمہیں یاد کرنے والا کوئی ہے؟" لیوائی پرسکون لہجے میں جواب دیتا ہے: "میرا کوئی نہیں ہے۔"
دوسری طرف تراسا اپنی ماں کی قبر پر جاتی ہے، جہاں اس کا باپ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ یہاں تراسا کے بارے میں ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے۔ جب وہ اپنی سناپر رائفل سے کسی کو مارتی ہے، تو وہ گولی کا خول اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور بعد میں اسے اپنے والد کے حوالے کر دیتی ہے، شاید اس لیے کہ اس کا دل ہلکا ہو جائے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تراسا کے ہاتھوں اب تک کئی جانیں ختم ہو چکی ہیں۔ تراسا اپنے والد کو بتاتی ہے کہ اسے ایک نیا پروجیکٹ ملا ہے، جو پورے ایک سال تک چلے گا، اور اس دوران وہ شاید ان سے نہ مل سکے۔ لیکن اس کے والد کا جواب سن کر تراسا کے پاؤں تلے زمین کھسک جاتی ہے۔ وہ گہری آواز میں کہتے ہیں: "کینسر نے مجھے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں بچا۔ اگر آنے والے دنوں میں میری موت نہ ہوئی، تو میں خود 14 فروری، ویلنٹائن ڈے پر اپنی زندگی ختم کر لوں گا۔ ہو سکتا ہے یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔" یہ سن کر تراسا کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
مشن کا آغاز
کہانی آگے بڑھتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ لیوائی ایک جہاز کے ذریعے اپنے نئے مشن کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ لیکن اسے اب تک نہیں پتا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور اسے کس قسم کا مشن سونپا گیا ہے۔ ایک سپاہی اس کی طرف بڑھتا ہے اور کہتا ہے: "اپنی آئی ڈی اور واچ ہمیں دے دو۔ یہ سب تمہیں تب واپس ملے گا جب تمہارا مشن مکمل ہو جائے گا، یعنی ایک سال بعد۔" اس کے بعد سپاہی ایک اہم بات بتاتا ہے: "اب تمہارے جہاز کے اترنے کا وقت آ چکا ہے۔ کچھ ہی منٹوں میں ہم نو فلائنگ زون میں داخل ہونے والے ہیں۔ یہاں سے تمہیں اکیلے 32 کلومیٹر کی دوری شمال کی طرف پیدل طے کرنی ہوگی۔"
لیوائی کے چہرے پر بے چینی نمایاں ہے۔ وہ آخر کار پوچھ ہی لیتا ہے: "ہم آخر جا کہاں رہے ہیں؟" سپاہی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیتا ہے: "میں اس کا جواب دینے کا مجاز نہیں ہوں۔" جہاز کا دروازہ کھلتا ہے، اور لیوائی پیراشوٹ کو مضبوطی سے پکڑ کر محفوظ لینڈنگ کرتا ہے۔ لیکن اصلی امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ اسے 32 کلومیٹر کی دوری خود طے کرنی ہے۔ دو دن کی تھکاوٹ اور ناقابل برداشت چیلنجز کے بعد لیوائی اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
سامنے ایک پراسرار علاقہ پھیلا ہوا ہے، جہاں سناٹا بھی جیسے کوئی راز سمیٹے ہوئے ہے۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے، اس کی ملاقات ایک شخص جے ڈی سے ہوتی ہے۔ جے ڈی لیوائی کو ایک واچ ٹاور کی طرف لے جاتا ہے، جو بلندی پر واقع ہے اور چاروں طرف کی نگرانی کے لیے بنایا گیا ہے۔ چلتے چلتے جے ڈی کہتا ہے: "یہی وہ جگہ ہے جہاں تمہیں پورے ایک سال تک کام کرنا ہے۔ میرا وقت یہاں ختم ہو چکا ہے، اور اب تمہاری باری ہے۔"
لیوائی چاروں طرف دیکھتا ہے۔ ویران اور سناٹے میں ڈوبی یہ جگہ کسی پراسرار قصے کا حصہ لگتی ہے۔ لیکن اس کے ذہن میں ایک سوال اب بھی موجود ہے: "آخر یہاں میرا کام کیا ہے؟" جے ڈی جواب دیتا ہے: "یہ جگہ گورج کہلاتی ہے۔ ایک ایسی کھائی جو اتنی گہری اور خوفناک ہے کہ اس کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ تمہارا کام صرف ایک ہے: اس کھائی کی نگرانی کرنا۔" پھر وہ کچھ سخت قواعد بتاتا ہے: "تم مہینے میں صرف ایک بار کسی سے رابطہ کر سکتے ہو۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے، باہری دنیا سے رابطے کی امید نہ رکھنا۔ یہ ٹاور، جسے ہم ویسٹ ٹاور کہتے ہیں، اس کے بالکل سامنے اییسٹ ٹاور ہے، جہاں بھی ایک گارڈ تعینات ہے۔ لیکن تم دونوں کے درمیان کوئی رابطہ سختی سے منع ہے۔ اپنی حفاظت کا خیال رکھنا۔ یہاں ایک خودکار بندوق نصب ہے، جسے روزانہ چیک اور ری لوڈ کرنا ضروری ہے۔ اگر کبھی بارودی سرنگیں پھٹ جائیں، تو انہیں ٹھیک کرنا بھی تمہاری ذمہ داری ہوگی۔"
لیوائی ہر قاعدے کو غور سے سنتا ہے، لیکن اس کا سوال اب بھی باقی ہے: "آخر یہاں کیا ہے جس کی وجہ سے اتنی سختی کی جا رہی ہے؟" اسی لمحے جے ڈی ایک گرنیڈ نکالتا ہے اور اسے گہری کھائی میں پھینک دیتا ہے۔ جیسے ہی گرنیڈ گورج کی گہرائیوں میں دھماکہ کرتا ہے، وہاں سے ایک عجیب اور خوفناک آواز گونجنے لگتی ہے۔ یہ آواز انسانی نہیں تھی، بلکہ کسی ایسی چیز کی تھی جو اندھیرے میں چھپی ہوئی تھی۔ جے ڈی لیوائی کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے: "یہ آواز جو تم سن رہے ہو، یہ ان مخلوقات کی ہے جنہیں ہم ہولو مین کہتے ہیں۔ یہ مخلوقات گورج کے اندر چھپی رہتی ہیں، اور انہیں کسی بھی حال میں باہر نہیں نکلنے دینا۔"
جے ڈی مزید بتاتا ہے: "1940 میں تین پوری بٹالینز کو یہاں بھیجا گیا تھا۔ آج تک ان 2400 فوجیوں میں سے کوئی واپس نہیں لوٹا۔" جے ڈی اپنے آخری الفاظ کے ساتھ لیوائی کو الوداع کہتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر آسمان میں منڈلانے لگتا ہے۔ ہیلی کاپٹر میں موجود ایک سپاہی جے ڈی کی شناخت کی تصدیق کرتا ہے اور پھر اسے گولی مار کر نیچے پھینک دیتا ہے۔ اب ایک بات واضح ہو چکی تھی: جو اس جگہ آتا ہے، وہ یہاں سے کبھی واپس نہیں جاتا۔ یہ جگہ اتنی خفیہ ہے کہ یہاں تعینات ہر شخص کی موت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
لیوائی کا تنہا سفر
لیوائی اب جے ڈی کے بتائے ہوئے کام میں جٹ جاتا ہے۔ وہ خودکار بندوق کو ری لوڈ کرتا ہے اور آس پاس کے علاقے کا جائزہ لیتا ہے۔ دن گزرتے جاتے ہیں، اور اس طرح ایک مہینہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد لیوائی ہیڈکوارٹر سے رابطہ کرتا ہے اور اپنا اپ ڈیٹ دیتا ہے۔ اس کی آواز میں ہلکی تھکان جھلکتی ہے، لیکن وہ اپنی ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے نبھا رہا ہوتا ہے۔
ایک دن جب وہ الماری سے کتابیں نکالتا ہے، تو اس کی نظر الماری کے پیچھے کی دیوار پر پڑتی ہے۔ اس دیوار پر کچھ نوٹس لکھے ہوتے ہیں، جو ان تمام لوگوں کے تجربات تھے جو اس سے پہلے ویسٹ ٹاور میں ڈیوٹی کر چکے تھے۔ ہر نوٹ میں خوف، تنہائی، اور ہولو مین کے خطرات کا ذکر تھا۔ اسی دوران لیوائی اپنے ٹیلی سکوپ سے دور واقع اییسٹ ٹاور کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اور اسے ایک لڑکی نظر آتی ہے۔ یہ لڑکی کوئی اور نہیں، بلکہ تراسا ہی ہوتی ہے۔ اس کی خوبصورتی دیکھ کر لیوائی کی نگاہیں ٹھہر جاتی ہیں، لیکن وہ اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کرتا، کیونکہ اسے سختی سے ہدایت دی گئی تھی کہ اییسٹ ٹاور پر تعینات شخص سے کسی بھی حال میں رابطہ نہ کیا جائے۔
تراسا اور لیوائی کی ملاقات
لیوائی ویسٹ ٹاور میں اپنی زندگی گزار رہا ہوتا ہے، جبکہ اییسٹ ٹاور میں تراسا کو بھی لیوائی کے بارے میں پتا چل چکا ہوتا ہے۔ اسی دن تراسا کا سالگرہ ہوتا ہے۔ تنہائی میں گھری تراسا کو لگتا ہے کہ اسے کسی سے بات کرنی چاہیے۔ وہ لیوائی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور پوچھتی ہے: "تمہارا نام کیا ہے؟" لیوائی کو مشن کے سخت قوانین یاد آتے ہیں، اور وہ تحمل سے کہتا ہے: "ہمیں رابطہ کرنا یا بات کرنا بالکل اجازت نہیں ہے۔" لیکن تراسا مسکراتے ہوئے اپنا نام بتاتی ہے: "میرا نام تراسا ہے۔" اس پر لیوائی بھی زیادہ نہ سوچتے ہوئے اپنا نام بتا دیتا ہے: "میں لیوائی ہوں۔"
اب لیوائی کو پتا چلتا ہے کہ تراسا کوئی عام لڑکی نہیں، بلکہ ایک خطرناک سناپر ہے۔ آہستہ آہستہ دونوں کی بات چیت بڑھنے لگتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن اسی دوران ایک خطرہ سامنے آ جاتا ہے۔ تراسا کی نظر اچانک گورج کی طرف جاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ نیچے سے کچھ خوفناک مخلوقات، یعنی ہولو مین، تیزی سے ویسٹ ٹاور کی طرف چڑھ رہے ہیں۔ وہ فوراً لیوائی کو خبردار کرتی ہے: "نیچے دیکھو، کچھ آ رہا ہے!" لیوائی جیسے ہی نیچے دیکھتا ہے، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں۔ نیچے ایک یا دو نہیں، بلکہ ہزاروں ہولو مین اوپر کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔
لیوائی بغیر وقت ضائع کیے اپنی سناپر رائفل اٹھاتا ہے اور ایک ایک کر کے مخلوقات کو نشانہ بنانے لگتا ہے۔ لیکن ہولو مین کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اکیلے انہیں نہیں سنبھال پاتا۔ تراسا بھی اپنی مشین گن سے گولیاں برساتی ہے۔ دونوں اپنی اپنی طرف سے ہولو مین کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تراسا کی طرف بھی ایک جھنڈ چڑھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ ہمت اور ہوشیاری سے انہیں مار گراتی ہے۔ لیوائی اور تراسا کو احساس ہو جاتا ہے کہ اس خطرناک جگہ میں اگر زندہ رہنا ہے، تو انہیں مل کر لڑنا ہوگا۔
ایک پراسرار ڈرون
اگلے دن صبح جب لیوائی ٹاور کے آس پاس لگی بارودی سرنگوں کو ٹھیک کر رہا ہوتا ہے، تو اچانک گورج کے اندر سے ایک ڈرون نکلتا ہے۔ یہ ڈرون کچھ سیکنڈ تک لیوائی کی طرف دیکھتا ہے، جیسے اسے ریکارڈ کر رہا ہو۔ اس عجیب رویے کو دیکھ کر لیوائی حیران رہ جاتا ہے۔ اییسٹ ٹاور سے تراسا بھی اس ڈرون پر نظر رکھ رہی ہوتی ہے۔ دونوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ڈرون کیوں اور کس کے لیے بھیجا گیا تھا۔
وقت گزرتا ہے، مہینے بیت جاتے ہیں، اور اب دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ ویسٹ ٹاور میں لیوائی تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے۔ دن ایک جیسے لگنے لگتے ہیں، اور وہی معمولات اس کی بوریت کو مزید بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اسی دوران لیوائی کے ذہن میں ایک خیال آتا ہے: "کیوں نہ میں تراسا سے مل لوں؟"
لیوائی ایک منصوبہ بناتا ہے۔ وہ آر پی جی (راکٹ پروپیلڈ گرنیڈ) کے ذریعے اییسٹ ٹاور تک پہنچنے کا بندوبست کر لیتا ہے۔ اگلے ہی دن وہ آر پی جی کا استعمال کر کے ایک مضبوط رسی تراسا کی طرف پھینکتا ہے۔ تراسا، جو یہ سب دیکھ رہی ہوتی ہے، ٹاور کے باہر آتی ہے اور رسی کو مضبوطی سے باندھ دیتی ہے تاکہ لیوائی محفوظ طریقے سے اییسٹ ٹاور تک پہنچ سکے۔
لیوائی رسی کے سہارے ویسٹ ٹاور سے اییسٹ ٹاور کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ تراسا اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ خوش تھی کہ لیوائی نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی لیوائی اییسٹ ٹاور میں پہنچتا ہے، تراسا اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ گلے ملنے یا بات کرنے سے پہلے تراسا مسکراتے ہوئے کہتی ہے: "پہلے نہا لو، پھر میں تم سے ملوں گی۔" لیوائی یہ سن کر ہنس پڑتا ہے اور سر ہلا کر مان جاتا ہے۔
تراسا اپنے سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے لیوائی کو دیکھتی ہے، جو ٹاور میں لگے شاور میں نہا رہا ہوتا ہے۔ وہ اسے دیکھ کر مسکراتی ہے، جیسے دوستی کی ایک نئی شروعات ہو رہی ہو۔ اس کے بعد لیوائی اور تراسا ایک ساتھ بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے ہیں۔ تراسا پوچھتی ہے: "اب تک تمہارا سب سے لمبا شاٹ کون سا تھا؟" لیوائی فخر سے مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے: "میں نے 3240 میٹر کی دوری سے ایک آدمی کو نشانہ بنایا تھا۔ میں پہلے میرین کور میں تھا۔"
تراسا بھی اپنے ماضی کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ اپنے والد کا ذکر کرتی ہے، جن کی موت شاید اب تک ہو چکی ہوتی ہے۔ لیوائی پوچھتا ہے: "آخر یہ جگہ کیا ہے؟" تراسا سیدھا جواب دینے کے بجائے کہتی ہے: "زیادہ نہ سوچو، بس اپنے کام سے کام رکھو۔"
رات ہوتے ہی ماحول ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔ تراسا اور لیوائی کے درمیان نرم موسیقی بجنے لگتی ہے۔ دونوں موسیقی کی دھن پر ناچنے لگتے ہیں۔ ان کی ہنسی اور مستی ہوا میں گھل جاتی ہے۔ ناچ کے دوران وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک چمک اور دلوں میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوتا ہے، جو آہستہ آہستہ محبت میں بدلنے لگتا ہے۔ ناچ ختم ہونے کے بعد لیوائی تراسا کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتا ہے: "میں نے تمہارے لیے ایک نظم لکھی ہے۔ جب ہم یہاں سے نکلیں گے، تب میں تمہیں وہ نظم دوں گا۔"
اگلے دن لیوائی کو واپس ویسٹ ٹاور لوٹنا تھا۔ وہ تراسا کو الوداع کہتا ہے اور رسی کے سہارے واپس اپنے ٹاور کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ تراسا اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہتی ہے۔ لیکن اچانک کچھ ایسا ہوتا ہے کہ پورا ماحول بدل جاتا ہے۔
گورج کا راز کھلتا ہے
گورج سے ایک بار پھر خوفناک ہولو مین نکلنے لگتے ہیں۔ جیسے ہی وہ ویسٹ ٹاور کی طرف چڑھنے لگتے ہیں، ٹاور کے ارد گرد بچھی بارودی سرنگیں فعال ہو جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک زوردار دھماکے ہونے لگتے ہیں۔ ان دھماکوں کی وجہ سے لیوائی کی رسی بھی درمیان میں کٹ جاتی ہے، اور وہ ہوا میں لڑکھڑاتے ہوئے گورج کی طرف گرنے لگتا ہے۔
تراسا یہ منظر دیکھ کر سکتے میں آ جاتی ہے۔ لیوائی کی جان بچانے کے لیے اسے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ بغیر کسی کی پرواہ کیے وہ جلدی سے اپنے ہتھیار اٹھاتی ہے، پیراشوٹ پہنتی ہے، اور گورج کی طرف ایک بہادرانہ چھلانگ لگا دیتی ہے۔ ہوا میں تیزی سے گرتے ہوئے اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ نیچے موت کا کنواں اس کا انتظار کر رہا تھا، لیکن اس کے ارادے پختہ تھے: "چاہے کچھ بھی ہو جائے، میں لیوائی کو بچاؤں گی۔"
گورج کی گہرائی میں گرنے کے بعد تراسا ایک تیز بہاؤ والی ندی میں بہنے لگتی ہے۔ کسی طرح وہ ندی کے بہاؤ سے بچتے ہوئے کنارے تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسری طرف لیوائی کی قسمت اسے کچھ دیر تک بچائے رکھتی ہے۔ گرتے وقت وہ ایک بڑے درخت کی شاخوں میں الجھ جاتا ہے۔ جیسے ہی اس کی آنکھیں کھلتی ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ ایک بڑا کیڑے جیسا خوفناک جاندار اس پر حملہ کرنے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ وہ بچنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں، اور لیوائی نیچے گر جاتا ہے۔ نیچے گرتے ہی درخت کی جڑیں اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں، جیسے کوئی شکنجہ کس رہا ہو۔
تراسا، جو لیوائی کی تلاش میں تھی، اسے دیکھ لیتی ہے۔ وہ چاقو نکالتی ہے اور بغیر کسی خوف کے ان جڑوں کو کاٹنے لگتی ہے۔ لیوائی آزاد ہو جاتا ہے، اور دونوں چاروں طرف دیکھتے ہیں۔ ہر طرف سناٹا اور خوف کا عالم چھایا ہوا ہے۔ اچانک درختوں کی آڑ سے کچھ ہولو مین نکل کر ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لیوائی اور تراسا گھبراتے ہیں، لیکن خوف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ لیوائی اپنی بندوق سنبھالتا ہے اور پہلی گولی ایک ہولو مین کے سر پر داغ دیتا ہے۔ ایک کے بعد ایک، دونوں مل کر دو ہولو مین کو ختم کر دیتے ہیں۔
لیوائی کی نظر ایک ہولو مین کی لاش پر پڑتی ہے۔ اس نے وہی فوجی وردی پہن رکھی تھی جو کبھی امریکی فوجیوں کی ہوا کرتی تھی۔ اس کے بے جان چہرے اور سڑی گلی جلد کو دیکھ کر لیوائی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسے جے ڈی کی وہ باتیں یاد آتی ہیں کہ 1940 میں 2400 فوجیوں کی ایک پوری بٹالین کو گورج میں بھیجا گیا تھا، جو کبھی واپس نہیں لوٹے۔
گورج کا خوفناک راز
لیوائی اور تراسا آگے بڑھتے ہوئے ایک عجیب اور خوفناک جگہ پر پہنچتے ہیں۔ یہاں کا منظر کسی ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ ہر طرف انسانوں کے سڑے گلے جسم پڑے تھے، اور سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ ان جسموں کے اندر سے درخت اور پودے اگ آئے تھے، جیسے کوئی جان لیوا وائرس نے اس جگہ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ اچانک درختوں کے درمیان سے کچھ ہلچل ہوتی ہے۔ لیوائی اور تراسا دیکھتے ہیں کہ ہولو مین ایک بار پھر ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔
خوف اور گھبراہٹ میں وہ سامنے نظر آنے والی ایک پرانی، ٹوٹی پھوٹی چرچ کی طرف بھاگتے ہیں۔ چرچ کا دروازہ دھکا دے کر وہ اندر گھس جاتے ہیں اور دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ اندر کا منظر اور بھی خوفناک ہوتا ہے۔ ہر طرف انسانوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، جن کی حالت سے لگتا تھا کہ انہوں نے خود اپنی جان لے لی تھی تاکہ اس وائرس سے بچ سکیں۔ اچانک ایک بڑی مکڑی تراسا پر کود پڑتی ہے۔ یہ کوئی عام مکڑی نہیں تھی، جیسے کسی تغیر (میوٹیشن) کا شکار ہو چکی ہو۔ لیوائی اور تراسا مل کر اسے ختم کر دیتے ہیں۔
ہولو مین پر وہ تابڑ توڑ فائرنگ کرتے ہیں۔ ایک ایک کر کے وہ گرتے جاتے ہیں، لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دونوں کو وہاں سے بھاگنا پڑتا ہے۔ چرچ سے نکلتے ہی لیوائی کی نظر سامنے پہاڑ میں بنی ایک پرانی سرنگ پر پڑتی ہے۔ دونوں سرنگ کے اندر جا کر چھپ جاتے ہیں۔
سرنگ کے اندر ٹوٹی پھوٹی مشینیں، زنگ آلود کنٹینرز، ٹوٹے ہوئے شیشے، اور پرانے لیبارٹری آلات پڑے ہوتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کبھی ایک بڑی لیبارٹری ہوا کرتی تھی۔ یہاں لیوائی کو ایک پرانی ڈی وی ڈی ملتی ہے۔ وہ اسے چلاتا ہے، اور اسکرین پر ایک لڑکی نظر آتی ہے، جو کپکپاتی آواز میں کہتی ہے: "ہم یہاں ایک خفیہ کیمیکل میزائل پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ سیکڑوں سائنسدان تھے۔ لیکن پھر ایک دن زلزلہ آیا۔ اس جھٹکے سے ہمارا کیمیکل میزائل لیک ہو گیا۔ زہریلا کیمیکل ہوا میں گھلنے لگا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں لوگ متاثر ہونے لگے۔ میں بھی متاثر ہوں۔ ہم نے فوج کو سب کچھ بتایا۔ ہم نے کہا کہ اس پورے علاقے کو تباہ کر دو تاکہ یہ انفیکشن پھیل نہ سکے۔ لیکن انہوں نے ہمیں نظر انداز کر دیا۔ اب یہ جگہ لعنتی ہو چکی ہے۔"
ویڈیو دیکھنے کے بعد لیوائی اور تراسا کو سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ لیوائی سرنگ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے۔ اسی دوران اسے ایک جدید کمپیوٹر ملتا ہے، جو اس جگہ کے لیے حیران کن تھا۔ وہ اسے آن کرتا ہے اور اس میں موجود معلومات دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ اسے ڈارک لیک نامی ایک کمپنی کے بارے میں پتا چلتا ہے، جو پیراملٹری بنانے کا کام کرتی ہے۔ یہ کمپنی یہاں سے متاثرہ لوگوں کے نمونے جمع کرتی ہے اور اپنے فوجیوں کو سپر سولجر بنانے کے لیے ان پر تجربات کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک اس جگہ کو تباہ نہیں کرنا چاہتا۔
اس کے علاوہ لیوائی کو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ گورج 4.2 کلومیٹر لمبی ہے۔ لیوائی اور تراسا یہ سب جاننے کے بعد جیسے ہی وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک ہولو مین اچانک ان پر حملہ کر دیتا ہے۔ وہ تراسا کو رسی سے کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ لیوائی تراسا کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ کہیں نظر نہیں آتی۔
آخری جنگ
لیوائی ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ایسی جگہ پر پہنچتا ہے جہاں ایک بڑی میزائل رکھی ہوئی تھی۔ یہ وہی میزائل تھی جس کے بارے میں اسے ڈارک لیک کے کمپیوٹر سے معلومات ملی تھیں۔ لیوائی کو سب کچھ سمجھ آ چکا تھا۔ واچ ٹاور پر پہلے رہنے والے لوگ جب کہتے تھے کہ اگر سائرن کی آواز سنائی دے تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے بھاگ جاؤ، وہ دراصل اسی میزائل کی بات کر رہے تھے۔ یہ میزائل 4.2 کلومیٹر کے پورے علاقے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
دوسری طرف تراسا اب ہولو مین کے قبضے میں تھی۔ اس نے اسے سمجھانے اور خود کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن ہولو مین اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن تراسا ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس نے اپنی سمجھ بوجھ سے خود کو آزاد کیا اور ہولو مین سے لڑ پڑی۔ لیوائی تراسا کو ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ وہ بغیر وقت ضائع کیے ہولو مین پر ٹوٹ پڑتا ہے اور اسے مار گراتا ہے۔
تراسا کو محفوظ دیکھ کر لیوائی نے راحت کی سانس لی، لیکن جب اس نے ہولو مین کو قریب سے دیکھا، تو اس کی نظر اس کے کپڑوں پر پڑی۔ ہولو مین فوجی وردی میں تھا، اور اس کے نام کی پٹی پر لکھا تھا: 2000۔ لیوائی کو صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ وہی فوجی تھا جسے واچ ٹاور پر سب سے پہلے تعینات کیا گیا تھا۔
اب سب سے بڑا چیلنج لیوائی اور تراسا کے لیے یہاں سے زندہ نکلنا تھا۔ لیکن راستہ آسان نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھتے ہیں، ایک خطرناک علاقہ آتا ہے جہاں سے نکلنا بہت خطرناک تھا۔ یہاں انسان اور پودے آپس میں مکمل طور پر جڑے ہوئے تھے، جیسے کسی خوفناک تجربے کا نتیجہ ہوں۔ ہر قدم سنبھل کر رکھنا پڑ رہا تھا۔ لیکن اچانک تراسا کا پاؤں پھسل جاتا ہے، اور پودے اسے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
لیوائی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے اور اپنی پوری طاقت سے تراسا کو بچانے میں جٹ جاتا ہے۔ وہ بم کا استعمال کر کے وہاں کے پورے پودوں کے نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔ چاروں طرف آگ کی لپٹیں اٹھنے لگتی ہیں، اور لیوائی تراسا کو لے کر وہاں سے محفوظ نکل آتا ہے۔
انہیں ایک گیراج نظر آتا ہے، جہاں ایک گاڑی کھڑی ہوتی ہے۔ بغیر وقت ضائع کیے لیوائی اور تراسا اس گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور گورج سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ دوری طے کرنے کے بعد انہیں ایک رسی نظر آتی ہے، جو واچ ٹاور تک جاتی تھی۔ لیکن اب ہولو مین بھی ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ چکے تھے۔ سیدھا پہاڑ چڑھ کر اوپر جانا ناممکن تھا، اور وقت بھی کم تھا۔
لیوائی کو ایک خطرناک خیال آتا ہے۔ وہ گاڑی کو تیز رفتار سے رسی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہولو مین مسلسل ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن لیوائی اور تراسا بہادری سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ گولیاں چلتی ہیں، دھماکے ہوتے ہیں، اور ایک ایک کر کے تمام ہولو مین کو وہ ختم کر دیتے ہیں۔
حتمی فیصلہ
آخر کار لیوائی اور تراسا کسی طرح واچ ٹاور تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا: اب وہ اس جگہ کی حفاظت نہیں کریں گے، بلکہ یہاں سے بھاگ جائیں گے۔ تراسا کہتی ہے: "میرے پاس فرانس میں چھپنے کی ایک جگہ ہے۔ ہم وہاں جا کر شادی کریں گے اور اپنی زندگی کی نئی شروعات کریں گے۔" لیوائی بھی اس فیصلے میں اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے: "میں اپنے ٹاور میں جا کر وہاں ایک بم فٹ کروں گا اور اس میزائل کو بھی فعال کر دوں گا، جس سے پوری گورج تباہ ہو جائے گی۔"
لیوائی فوراً اییسٹ ٹاور کی طرف بڑھتا ہے۔ اس دوران بار تھو لیوائی سے رابطہ کرتی ہے اور پوچھتی ہے: "کیا تم دونوں گورج میں گئے تھے؟ کیونکہ کسی نے ہمارے کمپیوٹر کو آن کیا ہے۔" لیوائی بغیر کچھ ظاہر کیے جواب دیتا ہے: "میں وہاں نہیں گیا تھا۔" لیکن بار تھو جانتی ہے کہ لیوائی جھوٹ بول رہا ہے۔ انہوں نے سیکیورٹی کیمروں میں دیکھا تھا کہ لیوائی اور تراسا دونوں گورج کے اندر گئے تھے۔ پھر بھی وہ بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہے: "اگر تم نہیں گئے، تو اس ٹاور کو نیوٹرلائز کر دیں۔"
لیکن لیوائی اور تراسا پہلے ہی تیاری کر چکے تھے۔ انہوں نے اس حملے کی توقع پہلے سے کر لی تھی۔ جیسے ہی بار تھو اپنی ٹیم کے ساتھ ویسٹ ٹاور میں پہنچتی ہے، لیوائی اور تراسا اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ وہ ٹاور کے ارد گرد لگے انٹینا کو بم سے اڑا دیتے ہیں، جس سے ایک تیز سائرن بجنے لگتا ہے۔ اب ان کے پاس صرف چند منٹوں کا وقت تھا۔
لیوائی اور تراسا پوری طاقت سے جنگل کی طرف بھاگنے لگتے ہیں۔ اگر وہ وقت پر وہاں سے نہ نکلے، تو وہ بھی گورج کے ساتھ مٹ جائیں گے۔ لیوائی کی ٹانگ پہلے ہی زخمی ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے وہ زیادہ تیزی سے نہیں بھاگ پاتا تھا۔ بار تھو کو بھی احساس ہو چکا تھا کہ جلد ہی میزائل کا دھماکہ ہونے والا ہے۔
ٹھیک اسی وقت میزائل فعال ہو جاتی ہے۔ ایک بھیانک دھماکہ ہوتا ہے، اور پوری گورج تباہ ہونے لگتی ہے۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی لپٹیں اور جھٹکے دور تک پھیل گئے۔ بار تھو کا ہیلی کاپٹر بھی اس دھماکے کی زد میں آ جاتا ہے، اور وہ وہیں ماری جاتی ہے۔
دوسری طرف تراسا کسی طرح 4.2 کلومیٹر کی رینج سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، لیکن لیوائی کی حالت نازک تھی۔ ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ تیز بھاگنا اس کے لیے ناممکن ہو چکا تھا۔ آخر کار جب اس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے، وہ سنبھلنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اچانک ایک بڑے آبشار میں گر جاتا ہے۔
ایک نیا آغاز
دھماکے کے بعد گورج کے ساتھ ساتھ تمام ہولو مین بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ تراسا اب خود کو بچانے میں کامیاب ہو چکی تھی، لیکن لیوائی کے بارے میں اسے کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ ایک جگہ پر رُک کر لیوائی کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ دن گزرتے جاتے ہیں، لیکن لیوائی کا کوئی اتا پتا نہیں چلتا۔ وہ سمجھ جاتی ہے کہ شاید لیوائی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
گہرے دکھ میں ڈوبی تراسا لیوائی کی لکھی ہوئی نظم پڑھتی ہے۔ ہر لفظ میں اسے لیوائی کی یادیں محسوس ہوتی ہیں۔ آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ وہ اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اب تراسا نے اکیلے ہی اپنی نئی زندگی کی شروعات کر دی۔ وہ ایک ہوٹل میں کام کرنے لگتی ہے۔
لیکن پھر اچانک ایک دن تراسا کے سامنے لیوائی آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ زندہ تھا! لیوائی کو دیکھ کر تراسا کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ وہ خوشی سے اسے گلے لگا لیتی ہے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کو بوسہ دیتے ہیں، جیسے یہ لمحہ کبھی ختم نہ ہو۔
نتیجہ
دی گورج ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت ہر مشکل کو عبور کر سکتی ہے۔ جہاں ایک طرف خطرناک حالات اور خوفناک مخلوقات تھیں، وہیں دوسری طرف امید، جوش، اور جذبات کی طاقت تھی۔ یہ فلم نہ صرف ایکشن اور سنسنی سے بھرپور ہے، بلکہ اس میں انسانی رشتوں، قربانی، اور بہادری کی ایک خوبصورت تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔
اگر آپ کو یہ کہانی پسند آئی، تو اسے اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ ایسی ہی دلچسپ اور سنسنی خیز کہانیوں کے لیے ہمارے ساتھ جڑے رہیں، اور فلموں کی دنیا میں کھوئے رہیں!