ایک سائنس فکشن فلم "دی سائلنٹ پلینٹ" کی کہانی

 ایک سائنس فکشن فلم "دی سائلنٹ پلینٹ" کی کہانی

x







مستقبل کا ایک وقت جب سائنسدان ایک ایسا سیارہ دریافت کر لیں گے جہاں زمین سے کئی گنا بہتر معدنیات کے ذخائر موجود ہوں گے، لیکن اس سیارے کا ماحول انسانوں کے رہنے کے لیے موزوں نہیں ہوگا۔ پھر وہاں کان کنی کون کرے گا؟ اور کیا ہوگا جب دو لوگ اس خطرناک سیارے پر پھنس جائیں گے؟ آئیے، سب کچھ شروع سے جانتے ہیں۔


تازہ ترین سائنس فکشن فلم "دی سائلنٹ پلینٹ" کی کہانی کا آغاز نیا سے ہوتا ہے، جو اپنی ایک دوست کے ساتھ جنگل میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک پیچھے سے پولیس آ گئی۔ نیا کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی دوست کو وہیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ دراصل، اس وقت زمین پر سال 2051 چل رہا ہے، جہاں انسانوں نے ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے ہوئے زمین سے باہر بھی کئی ایسے سیارے دریافت کر لیے تھے جہاں انہیں زمین سے بھی بہتر معدنیات ملتی تھیں۔ البتہ، ان میں سے کئی سیارے ایسے تھے جہاں انسان سانس تک نہیں لے سکتے تھے۔ پھر وہاں کان کنی کیسے کی جائے گی؟ اس کا بھی ایک حل نکالا گیا کہ زمین پر جو بھی شخص جرم کرتا ہے، اسے سزا کے طور پر ان دور دراز سیاروں پر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں اسے اپنی پوری زندگی سزا کے طور پر حکومت کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے۔

اب موجودہ وقت میں ہمیں وہی دور دراز سیارہ دکھایا جاتا ہے جہاں تھیو نامی ایک شخص آکسیجن ماسک پہن کر کان کنی کر رہا تھا۔ اس نے کان کنی سے حاصل شدہ مواد کو زمین پر ٹیلی پورٹ کر دیا۔ تھیو دن بھر کان کنی کرتا اور جب اس کا کوٹہ پورا ہو جاتا تو وہ صرف رات کو ہی آزاد رہ سکتا تھا۔ اسے یہ کام اپنی پوری زندگی کرنا پڑتا، جب تک کہ وہ زندہ ہے۔ آج بھی تھیو دن بھر کے کام کے بعد اپنے کیپسول میں آیا، جو اب اس کا گھر تھا۔ یہاں اسے سانس لینے کے لیے ماسک نہیں پہننا پڑتا تھا۔ تھیو اب اپنی پرانی ویڈیوز دیکھتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔ ان ویڈیوز میں وہ اپنی بیوی مونا کے ساتھ تھا، جب وہ کبھی زمین پر اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اب وہ گزشتہ 15 سالوں سے سزا کاٹ رہا ہے اور اسے یہ آگے بھی اپنی پوری زندگی کرنا پڑے گا۔ البتہ تھیو کو اپنے کیے پر پچھتاوا بھی تھا، جس کی وجہ سے اسے یہ سزا ملی، لیکن اب وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں بدل سکتا۔


اب تھیو نے زمین پر کیا جرم کیا تھا کہ اسے اتنی بڑی سزا ملی؟ یہ ہمیں آگے پتا چلے گا۔ فی الحال تھیو کو زندہ رہنے کے لیے صرف کام کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی وہ اپنی بیوی کے ساتھ گزاری ہوئی یادوں کو یاد کرتے ہوئے سو گیا۔ اگلی صبح تھیو کے لیے کچھ مختلف نہ تھی۔ گزشتہ 15 سالوں کی طرح آج بھی وہ الارم سے جاگا اور اپنے کام پر نکل پڑا۔ اسے پھر سے ماسک پہن کر دن بھر کان کنی کرنی پڑی اور رات کو اپنے کیپسول میں واپس آیا۔ ویسے بھی اس سیارے پر بغیر ماسک کے کوئی انسان 5 منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، تو اگر وہ آزاد بھی ہو تب بھی اپنے کیپسول سے باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ یہاں کے ماحول میں آکسیجن کی مقدار 1 فیصد سے بھی کم ہے۔


آج جب تھیو سو رہا تھا کہ اچانک اس کے سینے میں لگا ہوا ٹریکر خراب ہو گیا۔ دراصل اسی ٹریکر کی مدد سے زمین پر موجود حکام کو پتا چلتا رہتا تھا کہ تھیو اب تک زندہ ہے۔ اگر یہ ڈیوائس خراب ہو جاتی اور انہیں لگتا کہ وہ مر چکا ہے، تو وہ زمین سے ہی اس کیپسول کی آکسیجن بند کر دیتے۔ اس کے علاوہ، اگر تھیو نے کان کنی بند کر دی اور مواد نہیں بھیجا تو بھی اس کی آکسیجن بند کر دی جاتی تاکہ اسے کسی اور قیدی کے لیے بچایا جا سکے۔ چنانچہ تھیو، جس کا ٹریکر خراب ہو گیا تھا، جلدی سے اٹھا اور مینوئل میں دی گئی ہدایات پڑھ کر اسے ٹھیک کرتا ہے تاکہ یہ زندہ ہونے کا سگنل دیتا رہے۔


اگلی صبح جب وہ پھر سے کان کنی کے لیے جا رہا تھا کہ اسے آسمان سے ایک اور کیپسول گرتا ہوا نظر آیا، یعنی کوئی اور قیدی بھی سزا کے طور پر اسی سیارے پر بھیجا گیا ہوگا۔ اس پورے علاقے میں تھیو اکیلا تھا، سو وہ بھاگ کر دیکھنے گیا کہ اس دوسرے کیپسول میں کون ہے۔ اس نے دوربین سے دیکھا کہ اس کیپسول کی سخت لینڈنگ کے بعد اس میں سے ایک نوعمر لڑکی باہر نکلی۔ اب اس لڑکی نے نادانی میں آکسیجن ماسک بھی نہیں پہنا تھا، سو کچھ ہی دیر میں جب اس کا دم گھٹنے لگا تو وہ واپس اندر بھاگ گئی۔ تھیو اب پریشان تھا کیونکہ یہاں صرف مجرموں کو بھیجا جاتا ہے، تو کیا پتا اس لڑکی نے زمین پر کیا برے کام کیے ہوں گے۔ وہ اس کے کیپسول کے پاس جا کر جانچ پڑتال کرتا ہے کہ آیا وہ اس کے لیے خطرہ تو نہیں۔ اور تھیو کا ڈر بالکل درست نکلا کیونکہ وہ لڑکی اپنے AI سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ شاید اسے یہاں موجود دوسرے قیدی کو مارنا پڑے۔ تھیو واپس اپنے کیپسول میں آیا اور سوچنے لگا کہ اسے آگے کیا کرنا چاہیے۔ بے شک وہ یہاں غلاموں کی طرح زندہ رہا ہو، مگر کم از کم اس کے پاس اپنی بیوی کے ساتھ گزری یادوں کا سہارا تو تھا، جن کے بل پر وہ اپنے دن کاٹ لیتا تھا۔ سو وہ فیصلہ کرتا ہے کہ چونکہ اسے کیپسول کے دروازے کھولنا آتا ہے، وہ رات کے اندھیرے میں جا کر پہلے یہ پتا لگانے کی کوشش کرے گا کہ وہ لڑکی کون ہے اور اس نے زمین پر کیا جرم کیا تھا کہ اسے یہاں بھیجا گیا۔


تھیو اب اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چپکے سے اس لڑکی کے کیپسول میں گھس گیا اور وہاں سے ایک ڈائری اٹھا لایا، جس پر اس کا نام لکھا تھا۔ تھیو واپس اپنے کیپسول میں آیا اور دیکھتا ہے کہ اس لڑکی کا نام نیا ہے اور اس نے اپنی ڈائری ایک مختلف زبان میں لکھی تھی۔ البتہ تھیو اس زبان کو سمجھ سکتا تھا۔ وہ پڑھتا ہے کہ نیا اپنے والدین کو یاد کرتی رہتی ہے، مگر اس میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اس نے زمین پر کیا کیا تھا۔

دوسری طرف اب نیا جاگ گئی اور وہ اس دن کے بارے میں یاد کرنے لگی کہ کس طرح اس کا کیپسول بڑی مشکل سے اس سیارے پر اترا تھا۔ اسے یہ بھی ٹھیک سے نہیں بتایا گیا تھا کہ یہاں آکسیجن بہت کم ہوگی۔ جب وہ باہر دیکھنے گئی کہ یہ سیارہ کیسا ہے تو چند منٹوں میں ہی اس کا دم گھٹنے لگا اور اسے واپس کیپسول میں آنا پڑا۔ یہ سارے واقعات تھیو نے چھپ کر دیکھے تھے، جنہیں اب نیا کے نقطہ نظر سے دکھایا جا رہا ہے۔ چونکہ نیا ابھی اس سیارے پر نئی آئی تھی، اسے ایک AI پارٹنر بھی مل گیا جو اسے رہنمائی کرتا رہے گا۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ نیا بغیر اپنے سوٹ کے باہر نہیں نکل سکتی اور سب سے اہم اصول یہ کہ اگر اس نے روزانہ کان کنی کا کام نہیں کیا تو زمین سے حکام اس کی آکسیجن بند کر دیں گے۔ نیا نے سب کچھ اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا، جو وہ اکثر کرتی ہے، کہ اب اسے یہی کان کنی کر کے اپنی زندگی گزارنی پڑے گی۔


یہاں AI نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس پورے علاقے میں تھیو نامی ایک اور قیدی رہتا ہے، جو ایک جرم کے بعد یہاں بھیجا گیا تھا، تو ہو سکتا ہے کہ وہ خطرناک ہو۔ اس سے نیا ڈر گئی کہ اگر وہ خطرناک ہوا تو کیا وہ خود کے دفاع میں اس پر حملہ کر سکتی ہے۔ اور یہی وہ جملہ تھا جو تھیو نے سن لیا اور اسے غلط فہمی ہو گئی کہ نیا اسے مارنے کی کوشش کرے گی، حالانکہ وہ خود اس سے ڈر رہی تھی۔


اب موجودہ وقت میں صبح ہوتے ہی دونوں، تھیو اور نیا، کان کنی کے کام پر چلے گئے۔ اس دوران ان کی نظر ایک دوسرے پر پڑی، مگر وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے، اس ڈر سے کہ کہیں کھانے اور دیگر وسائل کے لالچ میں دوسرا قیدی حملہ نہ کر دے۔ لیکن جیسے ہی نیا کام کے بعد اپنے کیپسول میں گئی، اسے احساس ہوا کہ اس کی ڈائری غائب ہے۔ AI نے انکشاف کیا کہ کل رات جب وہ سو رہی تھی، تھیو اس کے کیپسول میں گھسا تھا اور اس کی ڈائری لے گیا تھا۔ نیا یہ سن کر ڈر تو رہی تھی کہ کیا تھیو سے ڈائری واپس لینے جانا چاہیے، مگر اس ڈائری میں اس کی ساری یادیں تھیں۔ سو وہ حفاظت کے لیے ایک چھری ساتھ لے کر تھیو کے کیپسول میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس نے تھیو کے کیپسول تک جا کر دیکھا کہ وہ اسی کی ڈائری پڑھ رہا تھا۔ تھیو باہر اسے دیکھ کر دروازہ کھولتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اسے مارنے کیوں آئی ہے۔ نیا، جس نے اب تک اپنی چھری تھیو کے گلے پر رکھ دی تھی، غصے میں کہتی ہے کہ آئندہ تھیو کبھی اس کے کیپسول میں گھس کر کچھ نہ چورائے۔ یہ وارننگ دے کر وہ چھری ہٹاتی ہے اور اپنی ڈائری واپس لے کر جانے لگتی ہے۔

تھیو حیران تھا کہ اگر نیا کو اسے مارنا ہوتا تو وہ اب آسانی سے مار سکتی تھی، یعنی وہ کچھ غلط سمجھ گیا تھا۔ تھیو فوراً اپنا ماسک پہن کر نیا کے کیپسول میں واپس جاتا ہے۔ نیا، جو اب تک اس پر ناراض تھی، کہتی ہے کہ تھیو اسے اکیلا چھوڑ دے اور دونوں الگ الگ رہ کر اپنا اپنا کام کر سکتے ہیں۔ لیکن تھیو معافی مانگنے لگتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس نے اس ڈر سے کہ کہیں یہ دوسرا قیدی اس پر حملہ نہ کر دے، اس کی ڈائری چوری کی تھی تاکہ اس کے بارے میں جان سکے۔ وہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔ نیا بھی سمجھ گئی کہ تھیو نے یہ سب ڈر کے مارے کیا تھا۔ چونکہ دونوں قیدی تھے، وہ ایک دوسرے پر شک کرنے لگے تھے۔ سو وہ اپنی چھری نیچے کر لیتی ہے۔


اگلے دن جب وہ کان کنی کے دوران ملے، ان کا ایک دوسرے کے بارے میں ڈر کم ہو چکا تھا۔ شام کو نیا کو ایک نوٹ ملا جس میں تھیو نے اسے رات کے ڈنر کے لیے اپنے کیپسول میں مدعو کیا تھا۔ نیا جاننا چاہتی تھی کہ تھیو نے کیا کیا ہوگا کہ اسے اس سیارے پر بھیجا گیا۔ ویسے بھی پرائیویسی پروٹوکول کی وجہ سے اس کا AI اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا تھا، سو اسے خود ہی یہ جاننا تھا۔ دوسری طرف تھیو اپنے کیپسول میں ڈنر کی تیاری کر رہا تھا اور اس کے ذہن میں بھی یہی سوال اٹھ رہے تھے۔


کچھ دیر بعد جب نیا وہاں ڈنر کے لیے پہنچی تو تھیو اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کیونکہ نیا کو یہاں آئے چند دن ہی ہوئے تھے، جبکہ وہ گزشتہ 15 سالوں سے بالکل اکیلا تھا۔ اس لیے آج کسی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ڈنر کرنا اس کے لیے ایک تحفے سے کم نہ تھا۔ حیرت انگیز طور پر تھیو اوریئن زبان میں بات کرتا ہے، جو نیا کی مادری زبان تھی اور اب کے زمانے میں زیادہ تر لوگ اس زبان سے واقف بھی نہیں تھے۔ نیا پوچھتی ہے کہ اسے اس کے آبائی شہر کی زبان کیسے معلوم ہوئی۔ تھیو کے مطابق وہ وہاں پہلے جا چکا تھا، ایک سیاہ سمندر سے گزرتے ہوئے۔ البتہ اس کے بتائے ہوئے راستے میں کچھ گڑبڑ تھی، مگر نیا اسے نظر انداز کر دیتی ہے، یہ سوچ کر کہ تھیو 15 سال سے اس سیارے پر بند ہے، تو اس کی یادیں دھندلی ہو گئی ہوں گی۔


اب ایک دوسرے کو مزید جاننے کے لیے نیا اپنے جرم کے بارے میں اعتراف کر لیتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ جب وہ بہت چھوٹی تھی، ایک آدمی نے اس کے والدین کو مار دیا تھا اور اس کا اثر اس کی پوری زندگی پر پڑا۔ بڑی ہوتے ہوئے وہ ایک باغی گروہ میں شامل ہو گئی جو حکومت کے خلاف تھا۔ جب پولیس کو اس کے بارے میں پتا چلا تو اسے سزا کے طور پر اس سیارے پر بھیج دیا گیا۔ نیا کے مطابق یہ حکومت چھوٹے جرائم کے لیے لوگوں کو مختلف سیاروں پر بھیج کر ان سے اپنے کام نکلواتی ہے تاکہ وسائل ملتے رہیں اور ملازمین رکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کی تو بچپن سے اب تک پوری زندگی برباد ہی رہی ہے۔

نیا کے برے ماضی کو سن کر تھیو اسے اس سیارے کی ایک بڑی سچائی بتاتا ہے جو زمین پر حکومت کسی کو نہیں بتاتی، ورنہ اگر یہ سچ سب کو پتا چل گیا تو لوگ اس پروجیکٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ کر بند کروا دیں گے۔ وہ پروجیکٹ جس میں قیدیوں کو کان کنی کے لیے اس سیارے پر بھیجا جاتا ہے۔ دراصل اس سیارے پر ایک عجیب و غریب بنفشی گیس گھومتی رہتی ہے جو کئی دنوں میں ایک بار گزرتی ہے۔ تھیو کے مطابق یہ گیس انسانی جذبات کو پڑھ کر انہیں دوگنا کر دیتی ہے۔ اس گیس کے قریب آنے سے اسے خود اس کے بارے میں پتا چلا، اور کبھی کبھی یہ گیس اسے وہم بھی دکھاتی ہے، ان بری یادوں کے جو اس نے اپنی زندگی میں گزاری تھیں۔


اب نیا سمجھ گئی کہ اسے بھی زمین کے دنوں کے وہم یہاں آنے کے بعد زیادہ آنے لگے تھے، جب وہ پولیس کے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔ تھیو بھی اسی وجہ سے اپنی بیوی اور ماضی کے وہم دیکھتا رہتا تھا۔ البتہ اس کے ماضی میں ایک گہرا راز چھپا ہے جو ہمیں آگے پتا چلے گا۔ اب موجودہ وقت میں تھیو نے نیا کو سب سمجھا دیا تھا کہ یہ بنفشی گیس ان کے دل کی خواہشات کو جانتی ہے۔ ڈنر کے بعد نیا کے جانے کا وقت ہو چکا تھا، مگر تھیو اسے بتاتا ہے کہ اس کا اصلی نام نیتھن ہے۔ یہ نام سن کر نیا گھبرا گئی کیونکہ اس کا ماضی اس نام سے گہرے طور پر جڑا تھا۔ وہ جلدی سے بھاگ کر اپنے کیپسول میں آتی ہے اور اپنے AI سے پوچھتی ہے کہ کیا واقعی تھیو کا نام نیتھن ہے۔ دراصل اس کے والدین کو بچپن میں مارنے والے شخص کا نام نیتھن تھا، اور اس کے والدین کی موت آج سے 16 سال پہلے ہوئی تھی، جبکہ 15 سال پہلے تھیو کو یہاں سزا کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ اب نیا کو سارے اشارے اسی طرف جا رہے تھے کہ اس کے والدین کو کسی اور نے نہیں، تھیو نے مارا ہوگا۔


اگلی صبح جب دونوں کان کنی کے دوران ملے تو نیا عجیب سلوک کرتی ہے اور تھیو کو نیتھن کہہ کر اسے رات کے ڈنر کے لیے اپنے کیپسول میں بلاتی ہے۔ تھیو کو کچھ عجیب نہیں لگتا اور وہ کام کے بعد اس کے کیپسول میں پہنچ جاتا ہے۔ نیا اسے اپنے آبائی شہر کی کچھ تصاویر دکھاتی ہے جہاں وہ بچپن میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ تھیو کے چہرے کو دیکھتی ہے، جیسے اس کے چہرے کے تاثرات بدلتے دیکھنا چاہتی ہو، مگر جب کچھ نہیں ہوتا تو وہ اس کے جرم کے بارے میں پوچھتی ہے جو اس نے 15 سال پہلے کیا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے اپنا جرم بتا دیا کہ وہ ایک باغی گروہ کا حصہ بن گئی تھی کیونکہ اس کے والدین کو کسی نے مار دیا تھا۔ لیکن تھیو نے اب تک اپنے جرم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ تھیو اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا اور غصے میں کہتا ہے کہ وہ ابھی کچھ نہیں بتا سکتا، اسے اس میں سکون نہیں۔ جب نیا باز نہ آئی تو تھیو اسے دھکا دے کر اپنے کیپسول کی طرف چلا جاتا ہے۔


اب وہ زہریلی گیس بھی واپس آ چکی تھی، جس سے نیا اپنے ماضی میں کھو گئی۔ اسے کبھی پتا نہیں چلا کہ اس کے والدین کو کس نے مارا تھا، اور اسی ایک واقعے نے اس کی پوری زندگی برباد کر دی۔ لیکن اب زندگی نے اتفاق سے اسے اس کے والدین کے قاتل سے ملوا دیا تھا۔ دوسری طرف تھیو بھی اپنے کیپسول میں پریشان تھا۔ اسے بھی اس گیس کی وجہ سے اپنی بیوی مونا کا وہم دکھائی دینے لگتا ہے جو کہہ رہی تھی کہ نیا اسے غلط سمجھ رہی ہے اور شاید جلد اس پر حملہ کر دے، تو بہتر ہے کہ تھیو اسے پہلے مار دے۔

ادھر نیا تھیو کو مارنے اس کے کیپسول میں جا رہی تھی کہ راستے میں تھیو اس پر حملہ کر کے اسے بے ہوش کر دیتا ہے۔ جب نیا کو ہوش آیا تو تھیو نے اسے اب تک نہیں مارا تھا، بلکہ معافی مانگ رہا تھا کہ اسے خود کو بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑا۔ لیکن نیا کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ تھیو ہی اس کے والدین کا قاتل ہے۔ وہ اس پر حملہ کرنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ تھیو نیا کے کیپسول میں چھپنے آیا تو وہاں بھی نیا اس پر حملہ کرنے لگی۔ تھیو جانتا تھا کہ نیا اسے مار دے گی، سو وہ اس کا چھری چھین کر اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ نیا بغیر ماسک کے باہر نکل آتی ہے، جہاں وہ 5 منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ گیس اب بھی آس پاس تھی اور تھیو کو اس کا ماضی یاد آنے لگتا ہے جب اس نے آخری بار چھری اٹھائی تھی۔ تھیو ہوش میں آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ نیا بغیر ماسک کے بھاگ گئی۔ وہ اسے بچانے کے لیے اس کے پیچھے جاتا ہے۔


نیا کو خوش قسمتی سے ایک اور کیپسول ملتا ہے جس میں وہ گھس جاتی ہے اور دیکھتی ہے کہ وہاں ایک آدمی کئی سالوں سے مردہ پڑا ہے۔ اس کا کیپسول بری حالت میں تھا، یعنی اس قیدی کو بھی حکومت نے کان کنی کی سزا دی ہوگی، مگر وہ اس سیارے کی تنہائی برداشت نہ کر سکا اور اس نے خودکشی کر لی۔ نیا وہاں چھپ جاتی ہے۔ جب تھیو اسے سمجھانے اندر آیا تو نیا نے پیچھے سے اس کے سر پر وار کر کے اسے مار دیا۔ تھیو اپنا ماضی یاد کرنے لگتا ہے کہ جب وہ ایک دن گھر گیا تو اس نے اپنی بیوی مونا کو اپنے بہترین دوست کے ساتھ بستر پر دیکھا۔ تھیو اس دھوکے کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے دونوں کو مار دیا۔ اسی لیے اسے اس سیارے پر بھیجا گیا تھا۔


نیا اسے یہ سمجھ کر مار رہی تھی کہ اس نے اس کے خاندان کو مارا ہوگا۔ جب وہ تھک گئی تو تھیو کو مرتا چھوڑ کر اپنے کیپسول میں واپس جانے لگی۔ تھیو اسے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا، مگر نیا نے کچھ نہ سنا۔ اگلی صبح اسے احساس ہوا کہ اس نے تھیو کو مرتا چھوڑ کر غلطی تو نہیں کی۔ جب AI اسے کام پر لوٹنے کو کہتا ہے تو نیا اسے توڑ دیتی ہے اور زخمی تھیو کو واپس لینے جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے وہ ابھی زندہ تھا اور دن ختم ہونے تک اسے ہوش بھی آ گیا۔ اب وہ بتاتا ہے کہ اسے نیا کے والدین یا اس کے شہر کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ جو کچھ اس نے اس کے شہر کے بارے میں بتایا، وہ اس کی ڈائری سے پڑھا تھا اور اس نے کبھی اپنا نام نیتھن نہیں بتایا تھا۔


نیا کو سب سمجھ آ گیا۔ دراصل وہ اپنی پوری زندگی اس بچپن کے واقعے سے پریشان رہی تھی اور اسے کبھی پتا نہیں چلا کہ اس کے والدین کو کس نے مارا۔ اس سیارے پر آنے کے بعد اس گیس نے اس کے جذبات کو بڑھا دیا اور اس کے ذہن نے تھیو کو نیتھن کا نام دے دیا تاکہ وہ اپنے سب سے بڑے سوال کا جواب ڈھونڈ سکے۔ تھیو اسے سمجھاتا ہے کہ اس سیارے کی گیس جذبات سے کھیلتی ہے، مگر نیا نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تھا اور اسے وہم ہو گیا تھا کہ تھیو نے خود کو نیتھن کہا تھا۔ تھیو کہتا ہے کہ وہ 15 سال سے اپنی بیوی کے ساتھ اس واقعے پر پچھتا رہا ہے، مگر اب وہ مزید ایسے نہیں جی سکتا۔ وہ مرنے سے پہلے نیا کی مدد کرنا چاہتا ہے۔


تھیو کے مطابق وہ نیا کے ٹریکر کو اپنے سینے میں لگا لے گا۔ جب وہ مرے گا تو زمین پر حکام سمجھیں گے کہ نیا مر گئی اور اسے مردہ قرار دے دیں گے۔ پھر نیا اپنی باقی زندگی آزاد رہ سکے گی۔ چونکہ تھیو مر رہا تھا، نیا اس کے منصوبے سے اتفاق کرتی ہے۔ دونوں یہ عمل جلدی مکمل کر لیتے ہیں۔ چند دن بعد تھیو مر جاتا ہے اور چونکہ اس کے سینے میں نیا کا ٹریکر تھا، حکام سمجھتے ہیں کہ نیا مر گئی۔ نیا اب کان کنی سے آزاد ہو جاتی ہے اور اس کیپسول میں چلی جاتی ہے جہاں وہ مردہ شخص ملا تھا۔ چونکہ وہ کیپسول 50 سال سے زیادہ پرانا تھا، حکومتی ٹیکنالوجی اسے ٹریس نہیں کر سکتی۔ نیا اسے استعمال کر کے اس سیارے سے نکل جاتی ہے اور ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتی ہے۔ وہ آخری بار تھیو کو یاد کرتی ہے، جس نے اپنی جان دے کر اس کی زندگی بچائی۔


اس خوشگوار اختتام کے ساتھ فلم ختم ہو جاتی ہے۔ یہ فلم خلائی سائنس فکشن سے زیادہ انسانی جذبات کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح ایک فیصلہ یا ایک چھوٹا واقعہ کسی کی زندگی کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ اگر یہ ویڈیو پسند آئی ہو تو لائک اور کمنٹ کریں۔ شکریہ

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.