شمالی پاکستان میں ایک سے زیادہ زبانیں "کوہستانی" کے نام سے موسوم ہیں۔ ان میں بالا و زیرین کوہستان اور دیر و سوات کوہستان کی زبانوں کے علاوہ زیرین چترال کی زبانیں شامل ہیں۔ ان میں سے ہر زبان بولنے والا خود کو اور اپنی زبان کو عام طور پر "کوہستانی" کہتا ہے لیکن اپنے پڑوسی کوہستانی کو پہچان میں سہولت کی خاطر کسی آور نام سے پکارتا ہے۔ ماہرین لسانیات نے بھی ان زبانوں کو اجتماعی طور پر"کوہستانی زبانیں" تسلیم کیا ہے لیکن ایک کوہستانی کو دوسری کوہستانی سے ممیز کرنے کے لیے کوئی آور نام دیا ہے۔ یہ نام بھی مغربی ماہرین لسانیات کی کتابوں میں یکساں نہیں ہیں۔ مثلا ماضی قریب تک سوات اور دیر کوہستان کی ایک ہی کوہستانی زبان کو "بشکارک"، "کالامی" ، "کالام کوہستانی" اور"گاوری" کے مختلف نام دئے گئے۔ یہی حال آباسین کوہستان کی زبان کے ساتھ کیا گیا۔ اس کو کتابوں میں کبھی "مَائیاں" لکھا گیا ہے اور کبھی "شُتُن" کا عجیب و غریب نام دیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے اپنی زبان کو "کوہستانی" ہی لکھنا پسند کیا۔ مثلا دی گئی تصویروں میں جس کتاب کے سرورق پر "کوہستانی اردو بول چال" لکھا ہوا ہے وہ دراصل توروالی کوہستانی ہے۔ اسی طرح جو بینر "گندھارا کوہستانی نیوز" کے نام سے ہے وہ گاوری کوہستانی کا خبرنامہ ہے۔ اس طرح اپنی اپنی کوہستانی کو صرف "کوہستانی" لکھنے سے قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسی کوہستانی؟ کیونکہ اُصولی طور پر تو ساری کوہستانی زبانیں ہیں اور بولنے والے ایک ہی کوہستانی قوم سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہزاروں مشترک الفاظ کے باوجود سینکڑوں سال کے عمل سے یہ اب الگ زبانیں بن گئی ہیں۔
اس وضاحت کے ساتھ میری تجویز ہے کہ اپنی کوہستانی قومیتی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے بھلے ہم اپنے ناموں کے ساتھ "کوہستانی" لکھیں لیکن اپنی کوہستانی زبان کو دوسری کوہستانی زبان سے ممتاز بنانے کے لیے "گاوری کوہستانی"، توروالی کوہستانی"، "آباسین کوہستانی" اور "شینا کوہستانی" وغیرہ لکھیں جس طرح دی گئی بعض کتابوں کی سرورق پر لکھا گیا ہے۔ اس سے وسیع تر کوہستانی شناخت بھی برقرار رہے گی اورانفرادی زبان کی شناخت بھی۔